مظفرآباد پولیس کی سیاحوں سے بدسلوکی، کیا سیاحت کا سال ایسے منایا جائے گا؟

فرحان میرا دوست ہے۔ کراچی کا باسی مگر روزگار کی غرض سے اکثر بیرون ملک رہتا ہے۔ کشمیر دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ ایک آدھ بار نیلم ویلی آ چکا ہے مگر بار بار آنا چاہتا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے سعودی عرب سے فرحان کی کال آئی۔ کہنے لگا کچھ دن تک وطن واپسی ہے، ارادہ ہے کہ چھٹیوں میں کشمیر کا چکر لگاوں۔ میں کہا جناب خوش آمدید، جب آنا ہو تو اطلاع کریں انتظامات کروا دیے جائیں گے۔ کہنے لگا نہیں بھائی آپ تکلفات میں پڑ جاتے ہیں بس راستے اور موسم کی معلومات دے دیں۔ میرے ساتھ دیگر احباب بھی ہوں گے تو آپ سے بس اسلام آباد میں ہی ملاقات کر لیں گے۔ خیر کافی دن گزر گئے فرحان سے دوبارہ رابطہ نہیں ہوا۔

24 نومبر کی شام ایک انجان نمبر سے کال آئی۔ کال ریسیو کی تو دوسری طرف فرحان تھا۔ آواز مغموم تھی۔ میں استفسار کیا کہ فرحان بھائی خریت تو ہے۔ جواب ملا کہ گڑھی حبیب اللہ شہر کے پل پر کھڑا ہوں ابھی ابھی مظفر آباد س بمشکل جان بچا کر یہاں آیا ہوں۔

ہوا کچھ یوں کے فرحان اطلاع دیے بغیر دوستوں کے ساتھ، جن میں ایک خاتون بھی شامل تھیں، براستہ برار کوٹ مظفرآباد پہنچ گیا۔ انہوں نے نیلم ویلی میں کٹن اور کیل میں رہائش کے لئے بکنگ کروا رکھی تھی۔ برار کوٹ چوکی پر پولیس نے انہیں شناختی دستاویزات چیک کرنے اور معمولی پوچھ گچھ کے بعد جانے کی اجازت دے دی مگر ساتھ ہی مظفرآباد میں صدر تھانے کو فون کر کے اطلاع دی کہ کہ شکار آ رہا ہے پکڑ لیں۔

مظفر آباد پہنچتے ہی صدر تھانہ کی نفری نے کمانڈو ایکشن کرکے چار سیاحوں کو تھانہ صدر پہنچا دیا۔ فرحان کے بقول چار گھنٹے تک ایس ایچ او شجاع گیلانی کی سربراہی میں پولیس نے ان کے ساتھ کھل کر بد سلوکی ، گال گلوچ اور الزام تراشی کی۔ کبھی منشیات برامد ہونے کا الزام اور کبھی اسلحہ کی سمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزام میں ایف آئی آر درج کرنے اور کبھی قابل اعتراض حالت میں پکڑے جانے کے الزام کے تحت پرچ کر کے گرفتار کرنے کی دھمکیاں دی جاتی رہیں۔ پولیس نے ان سے موبائل اور گھڑیاں والٹ سب چھین لیا اور کسی سے رابطہ تک نہ کرنے دیا کہ مدد طلب کر سکیں۔

چار گھنٹے بعد ایس ایچ نے پہلے ڈیڑھ لاکھ کا مطالبہ کیا پھر ایک لاکھ، پھر پچاس ہزار اور آخر کر چالیس ہزار کے عوض جان بخشی کی پیش کش کی جسے ڈرے سہمے سیاحوں نے چار و ناچار قبول کر لیا۔ چاروں کے والٹ سے کل ملا کر تیس پزار نکلے تو پولیس اپنی نگرانی میں انہیں قریبی حبیب بنک کے اے ٹی ایم تک لے گئی جہاں سے بقیہ رقم نکال کر پولیس کو دی گئی جس کے بعد پولیس نے اپنی نگرانی میں انہیں آزاد کشمیر کی حدود سے باہر نکال کر دھمکی دی کے اگر دوبارہ آزاد کشمیر کی حدود میں قدم رکھا تو زندہ واپس نہیں جا پاو گے۔

فرحان کی کہانی سن کر ایک لمحے کو تو میں خود سکتے میں آ گیا۔ واقعہ کی تصدیق کے لئے شجاع گیلانی کو فون کیا تو تھوڑاسوچ بچار اور پس و پش کے بعد انہوں نے تصدیق کی کہ ہاں واقعی انہوں نے چار لوگوں کو پکڑا اور نکاح نامہ نہ ہونے کی وجہ سے ضلع بدر کر دیا۔ البتہ چالیس ہزار روپے لینے یا کسی قسم کی بدسلوکی سے انکار کیا۔ میں نے استفسار کیا کہ آپ کس بناء پر کسی کو ضلع بدر کر سکتے ہیں اگر جرم سرزد ہوا ہے تو گرفتار کر کے عدالت پیش کیا جانا چاہیے میں اس بارے میں وزیر اعظم آزاد کشمیر اور وزیر سیاحت کو مکتوب لکھوں گا۔ کہنے لگے میں نے جو کرنا تھا کر دیا اب آپ جو کرنا چاہیں کر سکتے ہیں آپ کی مہربانی ہو گی۔ البتہ اس ساری بات چیت میں شجاع گیلانی کا لہجہ قابل تعریف حد تک شائستہ رہا۔

چونکہ فرحان کو لگ بھگ ایک دہائی سے جانتا ہوں اس لئے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ نوجوان چالیس ہزار کی معمولی رقم کے لئے کسی پر اتنا پڑا الزام نہیں لگا سکتا۔ میں نے فرحان سے درخواست کی کہ آپ واپس مظفر آباد جائیں میں کوشش کرتا ہوں آپکے پیسے آپ کو واپس مل جائیں۔ کہنے لگا جلال بھائی دفع کریں چالیس ہزار کے بجائے چار لاکھ بھی چلے جائیں کوئی مسئلہ نہیں لیکن پولیس نے جو لہجہ، زبان اور طریقہ کار اختیار کیا وہ قابل مذمت ہے۔ میری عزیزہ کے ساتھ جس طرح کی زبان استعمال کی گئی اور جو جو الزامات لگائے یا جس نوعیت کی دھمکیاں دی گئی، کسی مسلمان یا باشعور آفیسر سے اس کی توقع نہیں رکھتا البتہ یہ ہے کہ اب کشمیر دیکھنے کا شوق بحرحال پورا ہو گیا۔ آئندہ کبھی نہیں آوں گا۔

فرحان کی کال بند ہوتے ہی خیال آیا کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر تو متعدد بار پولیس کو تلقین کر چکے ہیں کہ سیاحوں کے ساتھ کسی قسم کی بدسلوکی نہ کی جائے۔ ابھی کچھ دن پہلے حکومت نے سال 2019 کو سیاحت کے فروغ کا سال قرار دیا ہے تو پھر یہ پولیس کس کام میں لگی ہوئی ہے۔ کیا سیاحت کو فروغ ایسے ہی ملے گا کہ پولیس سیاحوں کو پکڑ کر عقوبت خانوں میں بند کرے، گا گلوچ کرے، پیسے بٹورے، جبراً ضلع بدر کرے اور پھر ان کو پکڑ کر خیبر پختون خواہ کے علاقوں میں بھیجے کے جائیں وہاں سیاحت کریں ہمیں آپکی ضرورت نہیں؟

وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کے پریس سیکرٹری برارد راجہ وسیم کے ذریعے یہ بات وزیر اعظم کے نوٹس میں لائی جا چکی ہے جنہوں نے اس پر فوری کاروائی کے احکامات جاری کئے ہیں۔ ڈپٹی کشمیر مظفرآباد مسعود الرحمان اور ایس ایس پی راجہ اکمل کا متاثرہ سیاحوں سے رابطہ ہو چکا ہے جو اس وقت بالاکوٹ میں قیام پذیرہیں۔ ایس ایس پی نے انہوں مظفرآباد واپس آ کر شکائت درج کروانے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر کے پریس سیکرٹری راجہ وسیم بھی فرحان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان کی داد رسی کی کا یقین دلایا گیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں اس پر کیا کاروائی ہوتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے