اپنا جرم ثابت ہے

ایک تو عورت، اوپر سے خوبصورت، اور پھر پڑھی لکھی ، اس پر اردو ، انگریزی ، سندھی اور ہندی میں رواں ، عالمی ادب میں کلاسیکئت سے جدیدیت تک کے تجربات پر بلا تکان بات کرنے والی ، علاقائی ادب کی عظمت کی مثالیں نقد منہ پر دے مارنے والی ، تمام بڑے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے کی دعویدار ، مردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال اٹھانے والی بے شرم ، جملہ سیاسی و سماجی آمرانہ رویوں کے خلاف پھٹ پڑنے والی ، ہر قسم کی تحریص ، ترغیب ٹھکرا کر ان داتاؤں کی دستگیری انا کی توہین کرنے والی ، صوفیت کی دلدادہ مارکسسٹ ، جس نے ایک غیر مشروط نسائی رویے کو سراہنے والے کنفرمسٹ سماج میں مرضی کی زندگی جینے ، منہ کھولنے کا جرم کیا اور پھر اس جرم کا آخری سانس تک دفاع کرتی رہی۔

کوتوال بیٹھا ہے

کیا بیان دیں اس کو

جان جیسے تڑپی ہے

کچھ عیاں نہ ہو پائے

وہ گذر گئی دل پر جو بیاں نہ ہو پائے

ہاں لکھو کہ سب سچ ہے ، سب درست الزامات

اپنا جرم ثابت ہے

جو کیا بہت کم تھا صرف یہ ندامت ہے

کاش وقت لوٹ آئے ، حق ادا ہوا ہے کب

یہ کرو اضافہ اب ، جب تلک ہے دم میں دم

پھر وہی کریں گے ہم ، ہو سکا تو کچھ بڑھ کر

پھر وہ گیت چھیڑیں گے

تیرہ زاد ہر آمر ، کانپ اٹھے جسے پڑھ کر

پھر وہ حرف لکھیں گے

بستہ دست ہر مظلوم ، جھوم اٹھے جسے گا کر

چیتھڑا ہے یہ قانون

باغیوں کے قدموں کی ، اس سے دھول جھاڑیں گے

آمری نحوست ہے یہ نظامِ احکامات

بیچ چوک پھاڑیں گے

وقت آنے والا ہے ہر حساب ہم لیں گے

جب حساب ہم لیں گے ، پھر جواب دینے کو تم مگر کہاں ہو گے

خار و خس سے کم تر ہو ، راستے کے کنکر ہو

جس نے راہ گھیری ہے ، وہ تمہارا آقا ہے

ہم نے دل میں ٹھانی ہے ، راہ صاف کر دیں گے

تم کے صرف نوکر ہو ، تم کو معاف کر دیں گے

فہمیدہ ریاض کی یہ نظم جب انیس سو بیاسی میں انھی کے رسالے آواز میں شایع ہوئی تو آواز بند کرنا تو بنتا تھا۔ تخریب کاری کی تلاش میں گھر کی تلاشی تو ہونا تھی ، پوچھ گچھ تو ہونا تھی۔اردو کی پہلی شاعرہ ہے جس پر پندرہ ریاستی مقدمے بنے ( پندرہ ہی شعری مجموعے ، ناول اور تراجم ریکارڈ میں چھوڑے)۔ بھارت سے ایک مشاعرے کا دعوت نامہ آیا پڑا تھا۔ فہمیدہ بچوں سمیت دلی پہنچ گئیں۔ خودساختہ جلاوطنی سات برس پر محیط ہو گئی۔اس دوران جامعہ ملیہ میں پڑھاتی رہیں۔ جب بے نظیر بھٹو نے حلف اٹھا لیا تو واپس آ گئیں۔بہت چھان پھٹک ہوئی کہ دشمن ملک میں قیام کے دوران ایک بھی پاکستان دشمن سرگرمی یا بیان ہاتھ آجائے۔مگر ہوتے تو ملتا۔

اس پر مجھے یاد آرہا ہے کہ جب جالب نے عین عروجِ ضیائی میں ’’ ظلمت کو ضیا ، صر صر کو صبا ، بندے کو خدا کیا لکھنا ’’ والی نظم کہی تو کچھ عرصے بعد کراچی میں بھارتی قونصل خانے میں مشاعرہ ہوا۔جالب بھی شریک ہوئے۔ بہت سا کلام سنایا۔سامعین میں سے ایک آواز آئی جناب وہ ’’ ظلمت کو ضیا ’’ والی نظم بھی سنا دیں۔جالب نے کہا بیٹا یہاں نہیں۔باہر فٹ پاتھ پر ملو دو بار سناؤں گا۔

فیض ہوں کہ فراز کہ فہمیدہ کہ جالب عجب ملک دشمن تھے جن سے ریاستی کمبل جان چھڑانا چاہتا تھا مگر یہ جان چھوڑنے پر آمادہ نہ تھے۔فہمیدہ کی تخلیقی زندگی اٹھاون برس پر پھیلی ہوئی ہے۔احمد ندیم قاسمی کے فنون میں چھپنے والی پندرہ سال کی سخنور بچی تہتر برس کی عمر تک رجز خواں رہی۔عطار ، رومی ، فرخ فروغ زاد ، نجیب محفوظ ، شیخ ایاز ، بھٹائی سے عشق کیا مگر دل کو تب بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ظفر اجن کی رفاقت میں زندگی کٹ گئی۔ ایک بیٹے کی حادثاتی موت کے بعد بھی دل کو دماغ پر حاوی نہیں ہونے دیا۔

سونے کے لیے پلنگ ، بیٹھنے کے لیے بنیادی سا صوفہ ، لکھنے کے لیے میز ، طارق روڈ کی پچھلی گلیوں میں یہ گھر کیا تھا ایک سرائے سی تھی۔سرائے میں کون مستقل ٹھہر سکا۔ فہمیدہ تو ویسے بھی بگولا تھی۔

پھونک سکتی ہوں دو عالم کے حجاب اے آدمی

لا مجھے دے دے تیرے کوزے میں جتنی آگ ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے