چیف جسٹس کی ڈیم بنانے کیلئے موبائل کارڈ پر ٹیکس بحالی کی تجویز، قوم سے رائے طلب

لندن: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے تجویز پیش کی ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو موبائل فون کے پری پیڈ کارڈز پر دوبارہ ٹیکس لگا کر ڈیم کے لیے پیسے جمع کیے جائیں گے، ساتھ ہی انہوں نے قوم سے اس حوالے سے رائے بھی طلب کرلی۔

لندن میں یوکے پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے زیر اہتمام فنڈ ریزنگ تقریب سے خطاب کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ‘عوام پر ڈیم بنانے کے لیے ٹیکس لگانا مناسب نہیں ہوگا، لیکن ہم نے پری پیڈ موبائل کارڈ پر وِد ہولڈنگ ٹیکس ختم کرایا تھا اور جب حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ اس سے ہر ماہ 3 ارب روپے کی بچت ہوئی۔ اگر قوم نے اجازت دی تو پری پیڈ کارڈ پر دوبارہ ٹیکس لگا کر ڈیم کے لیے پیسے جمع کریں گے، قوم میری اس تجویز پر رائے سے ضرور آگاہ کرے’۔

ماضی میں ڈیم تعمیر نہ کیے جانے کو مجرمانہ غفلت قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ‘دریائے سندھ کے انچ انچ پر ڈیم بننا چاہیے’۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ ‘ایک دن چاروں صوبے کالا باغ ڈیم پر بھی متفق ہوجائیں گے’۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘کراچی میں پانی کا بحران دیکھ کر انہیں اس مسئلے کی سنگینی کا احساس ہوا۔ ٹینکر مافیا اور پانی پر بند باندھنے والے بااثر لوگوں کا کراچی کے پانی پر قبضہ ہے اور بااثر لوگوں نے کراچی کو پانی فراہم کرنے والی جھیل کے راستے میں بند باندھ دیئے جبکہ لاہور اور کوئٹہ میں بھی زیر زمین پانی نیچے سے نیچے جاتا جا رہا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ نئی نسل کا مستقبل محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ڈیم کی تعمیر صرف پاکستان کی نہیں، انسانیت کی تحریک بن گئی ہے’۔

چیف جسٹس نے ایک بار پھر یقین دلایا کہ ڈیم فنڈ میں آنے والی ایک ایک پائی کی حفاظت کی جائے گی اور وہ قوم کی امانت محفوظ ہاتھوں میں دے کر جائیں گے اور اس حوالے سے ایک کمپنی ضرور بنائیں گے۔

ان کا کہنا تھا، ‘یہ فنڈ قوم کی امانت ہے اور میں یہ امانت کسی ایمان دار شخص کے حوالے کرکے جاؤں گا جو اس کی حفاظت کرسکے’۔

جسٹس ثاقب نثار نے ڈیم کی تعمیر میں تعاون کرنے پر عطیات دینے والوں اور حکومت کا بھی شکریہ ادا کیا۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز ڈیم فنڈ ریزنگ تقریب میں 17 کروڑ روپے سے زائد کے عطیات کا اعلان کیا گیا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار اِن دنوں برطانیہ کے نجی دورے پر ہیں جہاں وہ مختلف شہروں میں ڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈ ریزنگ تقاریب میں شرکت کر رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے