مونگ پھلی والا

میری اس سے جان پہچان زیادہ پرانی نہیں تھی، یہی کوئی دوچار ماہ پہلے کی بات ہے، یونہی شام کے وقت ٹہلتے ٹہلتے میں اکثر اس کے پاس مونگ پھلی لینے رک جایا کرتا تھا۔ ہلکی سی خنکی میں مونگ پھلی کے گرم گرم دانے مزا دیتے ہیں۔ مونگی پھلی والے کی عمر زیادہ نہیں تھی، یہی کوئی تیس بتیس برس کا ہو گا، رنگ گندمی، بال کالے اور آنکھیں بھوری، چہرے مہرے سے مقامی لگتا تھا۔

نہایت ہنس مکھ تھا، میں عام طور سے ایسے لوگوں سے جلد بے تکلف نہیں ہوتا مگر اس کی شخصیت میں نہ جانے ایسی کیا بات تھی کہ پہلے ہی دن میری اُس سے گپ شپ ہو گئی۔ اس روز مجھ سے پہلے جو شخص مونگ پھلی خرید رہا تھا وہ اس سے یوں بھائو تائو کر رہا تھا جیسے سونا خرید رہا ہو۔ بار بار وہ شخص ایک ہی بات کئے جا رہا تھا کہ مہنگائی یوں ہی نہیں بڑھی جاتی، یہ ہم ہیں جو چیزوں کی منہ مانگی قیمت دینے پر راضی ہو جاتے ہیں، اسی طرح مہنگائی بڑھتی ہے، میں اس مونگ پھلی کے اتنے دام ہرگز نہیں دوں گا۔

جواب میں مونگ پھلی والا مسکراتا رہا،اُس کے ماتھے پر کوئی شک آئی نہ چہرے پر ناگواری کے تاثرات، اُس نے بس اتنا کہا کہ ’’آپ برا نہ منائیں، جو مرضی دے دیں، بھلے کچھ بھی نہ دیں۔‘‘ یہ سن کر اُس شخص نے برا سا منہ بنایا اور دس کا نوٹ مونگ پھلی والے کی ریڑھی میں ڈالا اور ’’جائز دام لگایا کرو‘‘ کہہ کر چلا گیا۔ اُس شخص کے جاتے ہی میں نے ایک موٹی سی گالی دی اور اپنی دانست میں مونگ پھلی والے سے اظہار ہمدردی کیا، مونگ پھلی والے کے چہرے پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی، بمشکل تمام اس کے منہ سے صرف اتنا نکلا ’’صاحب، آپ پڑھے لکھے ہیں، ایسی زبان کیوں بولتے ہیں، اللہ ناراض ہو گا!‘‘ میں پانی پانی ہو گیا۔

اس دن کے بعد میرا یہ معمول ہو گیا کہ شام کو ٹہلنے کی غرض سے میں جب بھی نکلتا تو پانچ دس منٹ مونگ پھلی والے کے پاس ضرور رکتا۔ بظاہر وہ چٹا اَن پڑھ لگتا تھا مگر باتیں بہت گہری اور پتے کی کرتا تھا، اُس کی باتوں میں دانائی کی جھلک ہوتی تھی، ایک دو مرتبہ تو مجھے لگا کہ شاید یہ کوئی بابا ہے جو درویشی کی زندگی گزار رہا ہے یا پھر کوئی مجذوب ہے جو دنیا داری سے نفرت کرتا ہے۔ مگر جب اس نے مجھے اپنی غربت کی داستان سنائی تو میرا خیال بدل گیا، پھر مجھے لگا جیسے اپنی غریبی کی کہانی سنا کر یہ مجھ سے کسی قسم کی امداد کا طالب ہے، کچھ سوچ کر میں نے جیب سے چند نوٹ نکالے اور اسے دینے کی نیم دلانہ سی کوشش کی، ایک لمحے کے لئے اس کے چہرے پر حیرانی کے آثار نظر آئے مگر پھر فوراً ہی غائب ہو گئے اور ان کی جگہ بے بسی کے تاثرات ابھر آئے، یوں لگا جیسے اس نے میری اس حرکت کا سخت برا منایا ہے مگر مجبوری کی وجہ سے کچھ کہہ نہیں پا رہا۔ مجھے غلطی کا احساس ہو گیا، میں نے پیسے واپس اپنی جیب میں ڈال لئے۔

اس واقعہ کے بعد ہماری کچھ دوستی سی ہو گئی، کسی حد تک بے تکلفی بھی۔ ایک دن مجھے کہنے لگا کہ بظاہر جو کچھ نظر آتا ہے حقیقت میں وہ نہیں ہوتا، جیسے اُس دن آپ نے سمجھا کہ شاید میں بھی ان لوگوں کی طرح ہوں جو محنت کا دکھاوا کر کے بھیک مانگتے ہیں، مگر ایسا نہیں تھا۔ یہ بات سن کر میں نے کچھ شرمندگی محسوس کی، مگر مجھے یوں دیکھ کر فوراً ہی اس نے بات بدل دی ’’صاحب، میرا مقصد آپ کو شرمندہ کرنا نہیں، آپ تو بھلے آدمی ہیں، غنیمت ہے کہ آپ جیسے لوگ ابھی مل جاتے ہیں معاشرے میں۔ ‘‘ اس کی گفتگو کہیں سے بھی کسی اَن پڑھ شخص کی نہیں تھی، لگتا تھا جیسے کبھی نہ کبھی وہ کسی اسکول کالج ضرور گیا ہو گا۔ میں نے کریدنا مناسب نہیں سمجھا، مگر وہ شاید دل کا حال بھانپ لیتا تھا، مسکرا کر کہنے لگا ’’دس جماعتیں پاس ہوں صاحب اسی واسطے تھوڑی بہت باتیں جوڑ لیتا ہوں، قسمت میں یہ مزدوری لکھی تھی سو کر رہا ہوں، یہاں ایم اے پاس بیکار پھر رہے ہیں، میں تو پھر چار پیسے کما لیتا ہوں۔ ‘‘

ایک دن باتوں باتوں میں اُس نے مجھے بتایا سامنے والی کوٹھی میں چند ماہ پہلے جو نئی نویلی دلہن آئی تھی اُس کی طلاق ہونے والی ہے۔ میں نے حیرت سے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ جس نوجوان سے اُس کی شادی ہوئی تھی وہ پہلے سے شادی شدہ تھا، یہ بات اس دوسری بیوی کو معلوم نہیں تھی، ایک روز پہلی بیوی ڈھونڈتی ڈھانڈتی یہاں پہنچ گئی اور طوفان مچا دیا، میں نے بھی تماشا دیکھا، اسی روز طے ہو گیا کہ دوسری بیوی کو طلاق ہو جائے گی۔ یہ سب سن کر مجھے خود پر بہت غصہ آیا، چند گلیاں چھوڑ کر میرا گھر تھا مگر مجھے ایسے کسی تماشے کی خبر نہیں ہوئی، ہاں آتے جاتے میں اس نوجوان جوڑے کو کبھی کبھار دیکھتا تھا، بظاہر دونوں بہت خوش تھے اور آئیڈیل زندگی گزار رہے تھے مگر میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کے درمیان ایسا کچھ ہو جائے گا۔

مونگ پھلی والے نے پھر میرے خیالات پڑھ لئے، ہنستے ہوئے کہنے لگا ’’میں نے کہا تھا کہ لوگ وہ نہیں ہوتے جو سامنے سے نظر آتے ہیں۔ ‘‘ پہلی دفعہ مجھے اس کی ہنسی کچھ عجیب لگی، مجھے لگا جیسے اس جملے میں میرے لئے بھی کوئی طعنہ ہے، لیکن پھر میں نے خود ہی اس احمقانہ خیال کو جھٹک دیا۔ اس مرتبہ مونگ پھلی والا میرے دماغ میں چلنے والے خیالات نہیں پڑھ سکا، اُس کا دھیان اپنے گاہک کی طرف تھا۔ چند ہفتے یونہی گزر گئے، اب میرا معمول یہ ہو گیا تھا کہ میں شام کی واک کے بعد مونگ پھلی والے کے پاس رک کر اُس سے محلے کی سن گن لیتا تھا، کون کیا کرتا ہے، کب آتا ہے، کب جاتا ہے، کتنے پیسے کماتا ہے، نئی گاڑی کس نے خریدی ہے، یہ جو بہت دیندار بنا پھرتا ہے یہ اصل میں کتنا دنیا دار ہے۔ مونگ پھلی والا بھی چسکے لے لے کر ہر کسی کا بھید کھولتا، پھر ایک دن عجیب بات ہوئی۔

میں حسب معمول واک کر کے واپس آ رہا تھا، جب اس جگہ پہنچا جہاں مونگ پھلی والا کھڑا ہوتا تھا وہاں اس کی ریڑھی تو موجود تھی مگر وہ خود غائب تھا، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی، سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھے، کہیں کوئی گڑبڑ نہیں تھی، بس ایک مونگ پھلی والا ہی غائب تھا۔ میں نے سامنے سبزی والے سے پوچھا کہ یہ کہاں گیا تو اس نے بتایا کہ دو گھنٹے پہلے چند پولیس والے آئے اور اسے اٹھا کر لے گئے، اس نے بتایا کہ یہ پولیس والے کئی دن سے سادہ لباس میں اس کی نگرانی کر رہے تھے، انہیں شبہ تھا کہ مونگ پھلی والا غیرملکی جاسوس ہے، آج جب انہیں اس بات کے ثبوت مل گئے تو وہ اسے گرفتار کر کے لے گئے۔

اس دن کے بعد سے میرا ہر بات سے ایمان اٹھ گیا ہے، مجھے لگتا ہے کہ جو لوگ روزانہ ہمیں ملتے ہیں دراصل وہ بہروپیے ہیں، اُن کا اصل روپ کچھ اور ہے جو ہمیں نظر نہیں آتا جیسے پولیس کا بھیس بدل کر تھانوں میں بیٹھنے والے اہلکار، صحافیوں کا بھیس بدل کر ٹی وی چینل پر بیٹھنے والے تجزیہ نگار، ڈاکٹروں کا بھیس بدل کر کلینک میں بیٹھنے والے ٹھگ، سرکاری افسروں کا بھیس بدل کر دفتروں میں بیٹھنے والے فرعون، مذہب کے خودساختہ ٹھیکیدار۔ اب تو مجھے اس دنیا پر بھی شبہ ہونے لگا ہے، نہ جانے یہ دنیا بھی حقیقت ہے یا ہم کسی خواب میں ہیں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے