عریب فاطمہ کی کہانی

رانا اشرف کے چہرے پر پھیلے دکھ کو دیکھ کر میرا اپنا دل بھی دکھ سے بھر گیا۔

رانا اشرف بتانے لگا کہ اس کی بیٹی سپیشل چائلڈ ہے اور وہ اب تک تین سکول بدل چکا ہے۔ ہر دفعہ بچے اسے مارتے ہیں۔ آج بھی گھر آئی تو زخم کے نشانات تھے۔

وہ بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا اور اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا کرے۔ کہنے لگا: اسلام آباد میں ایسا سکول ہی نہیں جہاں سپیشل بچوں کے لیے بہترین سہولتیں ہوں۔ بتانے لگا: ایک سکول ہے جہاں فیس بیس ہزار بتائی جا رہی ہے‘ لیکن بعد میں یہ سب سکول باقی سکولز کی طرح نکلتے ہیں۔

رانا اشرف سے میرا تعلق قائم ہوئے اب پندرہ برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ وہ پنجاب کے ضلع نارووال سے تعلق رکھتا ہے۔ میں اور عامر متین نے کبھی گپ شپ مارنی ہو تو راجپوتوں کی بات لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ پھر سنجیدگی سے راجپوتوں کی تاریخ بتائے گا اور بعض سیاستدانوں کو تو وہ راجپوت ماننے سے بھی انکاری ہو جائے گا۔
عامر متین دراصل رانا اشرف کے بہت بڑے فین ہیں۔ مجھے اکثر کہتے ہیں: کمال ہیرا ڈھونڈا ہے۔ بعض دفعہ تو ہمیں لگتا ہے دنیا کا کوئی کام ایسا نہیں جو رانا اشرف نہیں کر سکتا۔ وہ کر سکتا ہو یا نہ کر سکتا ہو‘ لیکن ”ناں‘‘ نہیں کرے گا۔ ہنس کر کہے گا: سر کوشش کرتے ہیں۔ وہ میرا اور عامر متین کا ٹی وی شو پروڈیوس کرتا ہے۔ ہمارے لیے سپریم کورٹ سے ایکسکلوسیو خبریں بھی لے آتا ہے۔ میں اور عامر متین کسی مسئلے میں پھنس جائیں تو بھی وہی ہمیں بیل آئوٹ کرتا ہے۔

جب میں نے ٹیم بنانا شروع کی‘ تو میری کوشش تھی کہ ہر قومیت کا بندہ اور دیگر مذاہب کے لوگ میری ٹیم میں ہوں۔ پوٹھوہاریوں کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں کیونکہ ہم ان کی دھرتی پر آن بسے ہیں۔ پوٹھوہاریوں کا زیادہ حق بنتا ہے کہ نوکریاں ان کو ملیں۔ پھر پنجابی، پختون، سرائیکی، بلوچ، سندھی اور اردو سپیکنگ ٹیم میں شامل ہیں۔ سب قابل ہیں اور میں سب سے فائدہ اٹھاتا ہوں۔ شروع میں کوشش کی تھی کہ ہندو، سکھ، کرسچین بھی ہوں لیکن میڈیا میں نہ مل سکے۔

خیر بات رانا صاحب کی ہو رہی تھی۔ ان برسوں میں اسے مایوس یا تھکا ہوا نہیں دیکھا۔ اس نے بہت مشکلات کا سامنا کیا۔ طویل عرصہ بیروزگاری کا سامنا بھی کیا‘ لیکن کبھی اس کے چہرے پر تھکاوٹ نہ دیکھی۔ ہمیشہ حوصلے میں دیکھا۔ اس کا پہلا بیٹا موسیٰ خصوصی بچہ تھا۔ سات آٹھ برس کی عمر میں وہ فوت ہوا تو بھی رانا اشرف کا حوصلہ قائم تھا۔ پھر اس کی بیٹی عریب فاطمہ پیدا ہوئی تو وہ بھی سپیشل چائلڈ ہے۔ اس بیٹی کی وجہ سے رانا اشرف اپنے بیٹے کا غم بھول گیا۔ وہ زیادہ بول نہیں سکتی۔ رانا اشرف کبھی کبھار اپنی بیٹی کی موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیوز مجھے دکھاتا ہے۔ وہ بہت ذہین اور ایکٹو بچی ہے اور کیا کمال کی اداکاری کرتی ہے۔

اب رانا اشرف دفتر بیٹھا پوچھ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ کدھر جائے؟ خصوصی بچوں کے والدین کیا کریں، کس دیوار کے ساتھ جا کر ٹکریں ماریں؟

رانا اشرف سے یہ سب کچھ سن کر مجھے دو ہزار سات کی لندن کی دھوپ بھری دوپہر یاد آئی۔ میں ان دنوں لندن میں رسل سکوائر میں رہتا تھا۔ میرے بچے چھوٹے تھے اور میں ان کو ہر دوسرے تیسرے دن قریبی پارک میں لے جاتا‘ جہاں روشن دن میں بہت سارے لوگ پہلے سے بچوں کے ساتھ موجود ہوتے۔ پارک میں چھوٹے بچوں کے کھیلنے کیلئے بہت سا سامان موجود تھا۔ آپ بچوں کو وہاں چھوڑ دیں وہ شام تک کھیلتے رہیں گے۔ خزاں کے موسم میں وہ پارک مزید خوبصورت ہو جاتا‘ جب پارک میں ہر طرف درختوں سے گرے ہوئے رنگ برنگے پتے نظر آتے۔ آپ ان خشک پتوں پر چلتے تو ان سے جو آواز پیدا ہوتی وہ دنیا کی کسی بھی موسیقی سے زیادہ دل پذیر محسوس ہوتی۔ میں اکثر ان خشک اور رنگ برنگے پتوں پر چلتا رہتا‘ ان آوازوں کو اپنے اندر سمونے کی کوشش کرتا اور ان پتوں کی بے بسی محسوس کرتا جو اپنے شجر سے جدا ہو کر پائوں تلے کچلے جا رہے ہوتے۔ کبھی محسوس ہوتا‘ وہ آواز دراصل ان پتوں کا دکھ ہے جو اپنے شجر سے جدائی کا ہے۔

ایک دن میں نے وہاں سکول کے بچوں کو دیکھا جو ایک گروپ کی شکل میں وہاں آئے ہوئے تھے۔ میں دور گھاس پر لیٹا سورج کی روشنی اپنے اندر جذب کررہا تھا۔ میرے بچے بھی کھیل رہے تھے۔ ایک آنکھ ان پر رکھے دوسری آنکھ بند کرکے سورج کی کرنوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اچانک میری دونوں آنکھیں ان بچوں کے ساتھ ایک بچے‘ جو کچھ موٹا سا تھا اور سپیشل چائلڈ لگ رہا تھا‘ پر جا رکیں۔ سکول کے بچے خود انجوائے کرنے سے زیادہ اس بات میں مگن تھے ان کے اس دوست کو تکلیف نہ ہو۔ وہ ہر جھولے پر اسے لے کر جاتے، مل کر اٹھاتے، جھولے پر بٹھاتے اور پھر سب خیال کرتے کہ وہ کہیں گر نہ جائے۔ مجھے لگا‘ وہ سب بچے وہاں خود کھیلنے نہیں بلکہ اپنے اس کلاس فیلو کو کھلانے لائے تھے۔

میں سوچتا رہا‘ ان بچوں کے اندر یہ احساس کس نے ڈالا کہ انہوں نے اپنے اس دوست کا خیال رکھنا ہے کیونکہ وہ ان کی طرح نارمل نہیں‘ اور وہ لائف کو اس طرح انجوائے نہیں کر سکتا جتنا اسے کرنا چاہیے؟ کیا یہ سبق انہیں ان کے استادوں نے سکھایا کہ کیسے آپ نے اپنے سے کمزور دوست اور جسمانی طور پر معذور کلاس فیلوز اور انسانوں کی مدد کرنی ہے۔ ان کا مذاق نہیں اڑانا، یہ محسوس نہیں ہونے دینا کہ وہ کسی سے کم تر ہیں یا وہ ان سے پیچھے رہ گیا ہے کیونکہ خدا نے ان کو وہ سب صلاحیتیں نہیں دیں‘ جو دیگر بچوں کے مقدر میں آئی تھیں یا پھر یہ اس معاشرے کی خوبی تھی اور والدین نے اپنے بچوں کے اندر یہ احساس ڈالا تھا کہ آپ نے سپیشل چلڈرن کا نہ مذاق اڑانا ہے‘ نہ ہی کوئی تکلیف دینی ہے۔ لندن کے سکولوں میں مختلف رنگ، نسل اور قومیتوں کے بچے ہوتے ہیں‘ لہٰذا وہ سب بچپن سے ہی اس نفرت کا شکار نہیں ہوتے جو عام لوگوں میں آ جاتی ہے۔ وہ نسلی، طبقاتی اور معاشی تفریق کا حصہ نہیں بنتے۔

یہ سب سوچتے ہوئے میری نظریں ان بچوں پر لگی ہوئی تھیں۔

کچھ دیر بعد وہ سب ایک بڑے جھولے کے گرد کھڑے تھے اور کوشش کر رہے تھے ان سے پہلے ان کا خصوصی دوست چڑھ جائے‘ لیکن وہ سب مل کر بھی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو رہے تھے۔ میں تجسس سے انہیں دیکھنے لگا کہ اب کیا کرتے ہیں۔ وہ اسے چھوڑ کر خود جھولے کی سواری کرتے ہیں یا پھر اس دوست کو بھی جھولے میں بٹھائیں گے؟ پہلے تین بچوں نے کوشش کی کہ اسے کسی طرح جھولے میں بٹھایا جائے‘ لیکن انہیں محسوس ہوا کہ وہ جھولا کچھ بلندی پر ہے اور ان کا قد چھوٹا ہے۔ اس پر تین اور بچوں نے اس گروپ کو جوائن کیا‘ اور اب چھ بچوں نے وہ کوشش شروع کی۔ ان بچوں نے اس بچے کو اٹھا تو لیا لیکن اب بلندی کا مسئلہ تھا۔ اچانک وہ بچہ ان کے ہاتھوں سے پھسلا اور نیچے گر گیا۔ وہ سب بیقرار ہوکر اس کی طرف لپکے۔ میں اپنی جگہ سے اٹھا اور ان کے قریب گیا۔ وہ سب اسے صاف کر رہے تھے۔ میں نے انہیں کہا: اگر آپ اجازت دیں تو میں ان کی مدد کروں؟ ان سب نے میری طرف دیکھا۔ جی ضرور‘ ان میں سے ایک بولا۔ میں نے اس بچے کو جھولے میں بیٹھنے میں مدد دی۔ جب وہ سب جھولے میں بیٹھ گئے اور میں مڑنے لگا تو ان سب نے میرا شکریہ ادا کیا۔

میں واپس اپنی جگہ پر جا کر لیٹ گیااور آنکھیں بند کرکے پھر دھوپ کا مزہ لینے لگا۔ کچھ دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ میرے گرد کوئی چیز سایہ کر رہی ہے۔ آنکھیں کھولیں تو وہی بچے میرے گرد کھڑے تھے۔ میں حیران ہو کر اٹھ بیٹھا۔ ان میں سے ایک بولا: جانے سے پہلے آپ کا پھر شکریہ ادا کرنے آئے ہیں۔ آپ کی وجہ سے ہمارے دوست نے اس جھولے کا مزہ اٹھایا۔

اس واقعہ کے دس برس بعد اب رانا اشرف بیٹھا مجھے بتا رہا تھا اسلام آباد کے سکولز میں کیسے اس کی خصوصی بیٹی کو دیگر بچے مارتے ہیں اور وہ اب تک تین سکول بدل چکا ہے۔کیا ہم والدین اپنے بچوں کو نہیں سکھاتے کہ عریب فاطمہ جیسے خصوصی بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے؟ اساتذہ کرام عریب فاطمہ جیسے بچوں کے لیے دیگر بچوں میں ویسی بے پناہ محبت پیدا کیوں نہیں کرتے جو میں نے اس دن لندن کی دھوپ بھری دوپہر میں پارک میں دیکھی تھی؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے