اساں دل نوں مرشد جان لیا!

میں ابرار ندیم کو برسہا برس سے جانتا ہوں، ایک خوبرو نوجوان، متضاد صفات کا حامل، میرے ساتھ بیٹھا ہو تو ادب کی وجہ سے خاموش اور محفل یاراں میں چہکنے والا جملے بازی کرنے والا، خصوصاً گل نوخیز اختر کے ساتھ ’’چونچیں‘‘ لڑانے والا، ان دونوں میں سے کبھی ایک کا پلہ بھاری ہو جاتا ہے اور کبھی دوسرے کا، تمیز سے بات کرنے والوں کے ساتھ باتمیز اور بدتمیزی سے بات کرنے والوں کے ساتھ بہت بڑا بدتمیز۔ اصولوں پر ڈٹ جانے والا، اسے لاکھ سمجھائو کہ اپنے اصول پر قائم رہتے ہوئے بھی جذباتیت کا مظاہرہ نہ کرو اور کبھی یہ بھی مان لیا کرو کہ تم جس اصول پر ڈٹے ہوئے ہو، وہ اصول نہیں، محض تمہاری رائے ہے، مگر مجال ہے کہ یہ ’’سردار جی‘‘ آپ کی بات پر کان دھریں ۔

مجھے ایک بہت پرانا واقعہ یاد آرہا ہے، فیصل آباد سے پیرو مرشد احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر سلیم اختر اور میں ایک تقریب میں شمولیت کے بعد لاہور واپس آرہے تھے اور نہایت مزیدار گپ شپ کا دور جاری تھا۔ میں کار کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا، اچانک میری نظر سامنے سے آتی، ایک دوسرے سے ریس لگاتی دو بسوں پر پڑی۔ صورت حال یہ تھی کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے برابر تھیں اور یوں پوری سڑک انہوں نے گھیری ہوئی تھی۔

میں نے دیکھا کہ ہمارا ڈرائیور کار کو کچے پر اتارنے کے بجائے سیدھا ان کی طرف جارہا تھا، جب میں نے دیکھا کہ بسوں اور ہماری کار کے درمیان فاصلہ چند سیکنڈ کا رہ گیا ہے تومیں نے خوفزدگی کے عالم میں ڈرائیور کو کاندھوں سے جھنجھوڑتے ہوئے کہا ’’کار کو کچے پر اتارو‘‘ اس نے جب کار کو کچے میں اتارا تو کار الٹتے الٹتے بچی۔ اس ساری کارروائی کے دوران ہم تینوں سانس روکے خود کو موت کے کنوئیں میں بیٹھے محسوس کررہے تھے۔ جب ہمارے اوسان بحال ہوئے تو میں نے ڈرائیور سے کہا ’’تمہیں سامنے سے آتی بسیں نظر نہیں آرہی تھیں؟‘‘ پورے سکون سے بولا جی نظر آرہی تھیں، میں نے پوچھا ’’اس کے باوجود تم سیدھا ان کی طرف کیوں جارہے تھے‘‘ بولا ’’جناب میں صحیح جارہا تھا، وہ غلط ہی تھیں، یہ اصول کا معاملہ تھا اور میں اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا‘‘۔

خدا کا شکر ہے کہ ابرار اتنا ’’اصول پسند‘‘ نہیں کہ انسانی جانوں کو خطرے میں ڈال دے، وہ تو انسانوں سے پیار کرنے والا ہے، بے حد درد مند، غم گسار، اپنے وسائل سے بڑھ کر ضرورت مندوں کی مدد کرنے کا خواہشمند۔ گزشتہ دنوں اس کا ایک جاننے والا کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگیا، ابرار میرے پاس آیا اور کہا کہ ’’سر جی، میں چاہتا ہوں ہم سب مل کر اس کا علاج کرائیں‘‘ مجھے اس کی بات بہت اچھی لگی، مگر جب اس نے بتایا کہ اس کا کینسر آخری درجے پر ہے، تو میں نے اسے سمجھایا کہ کینسر کے اس نوع کے مریض اگر کروڑ پتی بھی ہوں تو کنگال ہو جاتے ہیں، مگر بچتے پھر بھی نہیں ہیں اور پھر ہم میں تو کروڑ پتی کوئی بھی نہیں۔

مگر متعلقہ اسپتال کے ایم ایس اور معالج کوفون کر کے اسکی حتی المقدور مدد کرنے کی کوشش بہرحال کی گئی، ابرار کے بارے میں ایک اور بات، بہت مذہبی ہے اور اتنا شریف ہے کہ کبھی کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا، یہ میرا خیال ہے جس پر میں واللہ اعلم ہی کہہ سکتا ہوں تاہم شرافت کا یہ مطلب بھی نہیں کہ انسان کسی سے محبت بھی نہ کرے چنانچہ ابرار نے ٹوٹ کر محبت کی مگر اس دوشیزہ کا ہاتھ تک نہیں پکڑا۔ یہ اس کا اپنا بیان ہے اور اس پر ایک بار پھر واللہ اعلم کہنا ضروری ہے۔

آج ابرار کی پنجابی شاعری ’’اساں دل نوں مرشد جان لیا‘‘ (ہم نے دل کو اپنا مرشد بنا لیا) کی تقریب رونمائی میں اس راز سے پردہ اٹھا ہی دوں کہ یہ ساری شاعری ہجر کی شاعری ہے۔ اس کے ایک ایک مصرعے میں دکھ بھرا ہوا ہے، اتنا گہرا عشق، اللہ معافی میں جوں جوں کتاب پڑھتا چلا گیا تومیں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ شاعری حقیقت سے مجاز تک کا سفر ہے۔ اس سفر کے دوران اس کے پائوں میں چھالے پڑ گئے ہیں، اس کے ہونٹ خشک ہوگئے ہیں اور اس کے خشک ہونٹوں سے نکلنے والے الفاظ دلوں میں چھید کرتے چلے جاتے ہیں، مجھے لگتا ہے اپنی اس کیفیت پر وہ خود بھی خوفزدہ ہو جاتا ہے اور پھر دل کو تسلی دینے کیلئے کہتا ہے ’’اکو واری فرض تے نئیں نا عشق دو بارہ ہوسکدا اے‘‘ میں اس پر آمین کہتا ہوں، مگر اس آمین کا مجھے کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔

بہرحال ’’اساں دل نوں مرشد جان لیا‘‘ کی شاعری سچی پنجابی، گہرے درد اور دکھ سے بھرے جذبات، شاعری کی کلاسیکی اور جدید روایات سے گندھی ہوئی! یہ ممکن نہیں کہ آپ یہ شاعری پڑھیں اور اس سے متاثر نہ ہوں۔ یہ بات میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور ضروری نہیں کہ میرا تاثر صحیح بھی ہو لیکن مجھے لگتا یہی ہے کہ ابرار کی شاعری کا محبوب اس کا ’’مرشد‘‘ ہے جس کی چوکھٹ پر بیٹھا وہ اس کی نظر کرم کیلئے گریہ کناں نظر آتا ہے، یہ محبوب اللہ کے خیالوں، اس کی سوچوں اور اس کے سجدوں میں بھی موجود ہے اور اگر اس شاعری کا محور مرشد نہیں، کوئی ’’اور‘‘ ہے اور اس کے اردگرد کہیں موجود ہے تو اس سے درخواست ہے کہ وہ ایک دفعہ ابرار کو اپنا درشن کرا دے۔

اگر وہ ابرار سے ناراض ہے تو پھر کسی دن مجھ سے آکر مل لے، میں محض انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت ابرار کے جذبات اس تک پہنچا دوں گا اور بتائوں گا کہ محبت کی قدر کرو، میں اسے ابرار کی شاعری سنائوں گا اور یوں مجھے یقین ہے کہ اس کا دل پسیج جائے گا۔ اور اگر یہ محبوب اس کا ’’مرشد‘‘ ہی ہے جس کی چوکھٹ پر وہ برسوں سے بیٹھا ہے تو پھر ہو ہی نہیں سکتا کہ اس ’’مرشد‘‘ کا دل نہ پسیجے۔آخر میں پوری دیانتداری سے میں عرض کرونگا کہ ابرار کی پنجابی شاعری شعریت کے نقطہ نظر سے ایک اور طرح کی شاعری کا آغاز نہ سہی، مگر آج کی پنجابی شاعری میں اپنی الگ پہچان ضرور رکھتی ہے اور یوں پوری دنیا میں جہاں جہاں پنجابی بولی جاتی ہے، اس شاعری کی خوشبو وہاں تک پہنچے گی اوراس خوشبو کی پذیرائی ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے