ایٹمی اسلحہ کھجوریں کھانے کو بنا یا تھا؟

پاکستان کی وزارت داخلہ اور خارجہ میں بنیادی پالیسی سازی کے شعبوں نے گزشتہ 71سال میں مشاورت کی جو خدمات انجام دی ہیں‘ اگر ان کا نتیجہ یہی ہے کہ پاکستان نے اپنی بنیادی پالیسیوں سے ہٹ کر وہ موقف اختیار کیا جائے‘ جو بنیادی طو رپر بھار ت کا ہے۔ کشمیر ی پالیسی لائن پرہمارے نئے موقف کے متعلق جو کچھ سمجھ میں آتا ہے‘ اس سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ بھارت کے نزدیک‘ پاکستان اپنی کشمیر پالیسی ترک کرنے پر آمادہ ہے۔ پاکستان نے 71 سال تک مظلوم کشمیریوں کے حقوق کی جو جنگ لڑی ہے‘ اس جنگ میں لاکھوں پاکستانی اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں نے بے پناہ خون بہایا۔

ہمارے وزیراعظم کی ”امن پیش کش ‘‘ سے بھارت کی فوجی قیادت نے جو ردعمل ظاہر کیا‘ وہ بھارتی سیاسی قیادت کے موقف سے لگہ نہیں کھاتا۔اس سے تو بہتر ہوتا کہ ہم پہلے ہی دن بھارت کا مطالبہ مان جاتے اور دونوں طرف کے عوام اور افواج کواتنا خون نہ بہانا پڑتا۔میرا خیال ہے کہ موجودہ سیاسی قیادت کو یاد دلانا پڑے گا کہ پاکستان اور بھارت کی تقسیم کی بنیاد کیا تھی؟مسلمان قیادت کو برصغیر میں اپنی علیحدہ قومیت کا تصور رکھنا پڑا اور اسی تصور کے تحت بے شمار قربانیاں دیتے ہوئے‘ اپنی علیحدہ قومیت کا موقف پیش کیا۔

کانگرس‘ مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھی۔ مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت میں ایک طویل جنگ کے بعد‘ ہندو قیادت کو یہ ماننا پڑا کہ مسلمان علیحدہ قوم ہے۔ یہی بات کانگرس کی متعصب قیادت کو تسلیم کرنا پڑی۔ حریف کو باور کرنا پڑا کہ مسلمان اکثریت کے علاقوںکو پاکستان کے سپرد کیا جائے اور ہندو اکثریت اپنے علاقوں میں مطمئن رہے۔ اگر یہ مطالبہ امن وامان کی فضا میں تسلیم کر لیا جاتا تو نہ کسی جھگڑے کی ضرورت ہوتی اور نہ خون کی نہریں بہائی جاتیں۔ ہمارے وزیراعظم کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے تھا کہ جو ”نظریہ امن‘‘ انہوں نے پیش کیا‘ وہی کانگرسی قیادت کا تھا۔بھارت کی مہاسبھائی قیادت اوران کی فوج کے سربراہ‘ وہی مطالبات تسلیم کرانے پر بضد ہیں‘ جو ہندو کانگرس کے ہی نہیں‘ مہاسبھائی قیادت کا تصور تھا؛اگر نظریہ پاکستان کا مطالبہ‘ مہاسبھائی نظریات سے ہم آہنگ ہو جاتا تو پھر فساد کی کیا ضرورت تھی؟

متعصب ہندوئوں کے سیاسی مطالبات منظور کر لیا جاتے تو پھر وہ فیصلہ‘ جو1947ء میں ہی مان لیا جاتا ‘جس کے تحت مسلمانوں کو اپنے سر ہتھیلیوں پر رکھ کر مسلح ہندوئوں کے ساتھ خون کی ہولی نہ کھیلنی پڑتی۔ جس فیصلے کے لئے ہم آج نبردآزما ہیں ‘ و ہ 1947ء میں ہی ہو جاتا۔ برصغیر میں پندرہ کروڑ مسلمانوں کا مقابلہ‘ متعصب ہندوئوں کے ساتھ ہوتا اور دوسری قومیں ‘ غیر جانبدار ہو جاتیں یا مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو جاتیں۔ خدا ہی جانتا ہے کہ نتیجہ کیا برآمد ہوتا؟ لیکن تاریخی طور پر یہ بات قرین قیاس ہے کہ ہندو قوم ہنگامی لڑائی میں مسلمانوں سے ٹکر نہیں لے سکتی تھی‘ جبکہ مسلمان برصغیر کی تاریخ میں شروع سے ہی ہندوئوں سے نبردآزما رہے اور کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ مسلمان اپنا اختیار انہی دلائل کے تحت لیتے‘ جن کا وہ مطالبہ کررہے تھے۔خیر اب یہ ماضی کا حصہ ہے۔ آج وقت بدل چکا ہے۔ مسلمانوں کوقدرت نے ایٹمی طاقت عطا فرما دی ہے اور بھارت کی مہاسبھائی قیادت بھی اس ہتھیار سے مسلح ہو چکی ہے۔

ماضی کی ہندو مسلمان جنگوں میں دونوں طرف تلواریںایک جیسی تھیں‘لیکن کوئی ہندو فوج اپنی تعداد میں دو تہائی سے
بھی زیادہ ہونے کے باوجود‘ مسلمانوں پر غلبہ نہ پا سکی۔ سیکولر نظریات‘ بھارت پر قبضہ کرنے والے انگریز فاتحین نے مسلط کئے۔ مسلمانوں کے سوا باقی تمام عقائد و نظریات رکھنے والے گروہوں نے انگریز کی حمایت کر دی اور دوسری ہر سیاسی قیادت سیکولر نظریات کے تحت سیاست کرنے پرآمادہ ہو گئی۔ سیکولر عقائد اور اسلامی نظریات کے مابین کشمکش ہوئی اور نتیجہ انگریز حاکموں کے حق میں نکلا۔مسلمانوں سے غلطی ہوئی اور” انتہا پسند‘‘ علمائے کرام نے انتہا پسند نظریات کو مسلمانوں کی سیاست کے زیر اثر کر دیا‘ جس سے ہم اقلیت میں آتے گئے اور ہندوستان کی تمام غیر متعصب قوموں کو ایک طرف منظم کر دیا گیا۔

مسلمانوں میں اگر تفرقہ نہ پڑتاتو ان کی بھاری اکثریت سیکولر سیاست کی طرف جا سکتی تھی۔ مولانا عبدالکلام اور ان کے دوسرے ہم خیال لیڈروں کومسلم قیادت حاصل ہو جاتی۔ ہندو مہاسبھا نہایت محدود گروہ تھا‘ جبکہ آزاد خیال مسلمان اور ہندوئوں کی اکثریت یکجا ہو کر انگریز کی غلامی سے نجات حاصل کر لیتی اورہندوستان کی ساری قوموں کو انگریز کی حاکمیت سے چھٹکارا مل جاتا۔مجھے آج بھی یہ کہتے ہوئے تامل نہیں ہوتا کہ انگریز اور موقع پرست ہندو لیڈروں میں سمجھوتہ نہ ہوتا تو تمام آزادی پسند قومیں‘ قوم پرستانہ نظریات پر متحد ہو کر ایک آزاد ہندوستانی قوم‘ آزاد معاشرے میں امن و امان کے ساتھ زندگی گزار رہی ہوتیں۔ اب وہ زمانہ نکل گیا۔ مسلمانوں کے سوا ساری مقامی قومیں‘ ہندو ئوں کے ساتھ جا ملیں۔ مسلمانوں کو ہندوکے زیر اثر کر دیا گیااورمسلمانوں نے جب ایک آزاد پاکستان حاصل کر لیا ‘ وہ ہندو کی مسلسل سازشوں کا شکار ہوتا آرہا ہے۔ مشرقی پاکستان‘ ہندو کی سازش کا شکار ہوا۔ ظاہر ہے کہ پاکستانی قوم کے اندر تفرقہ پیدا کرنے میں متعصب ہندو اور سامراجی امریکہ ساتھ مل گئے اور پاکستان دولخت ہو گیا۔یہ ایک طویل کہانی ہے۔ میں یہاں پر اپنی بات چھوڑتا ہوں۔

اختتام صرف اس بات پر کروں گا کہ پاکستان کے وزیراعظم نے جو ”نیا نظریہ امن‘‘ پیش کیا ہے‘ وہ بھارتی عزائم کو فروغ دینے کا ذریعہ بنے گا۔میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ بھارت کی مہاسبھائی قیادت کے درپردہ عزائم یہی ہیں کہ 1947ء کے بعد ایک بار پھر معصوم اور نہتے کشمیریوں پر‘ سادہ لوح سکھوں کو مسلح کر کے چھوڑ دیا جائے اور بھارتی افواج کی سرپرستی میں علاقائی طور پرایک بار پھر نسل کشی کی جلادی شروع ہو جا ئے۔
آخر میں یہی عرض کروں گا کہ ہم نے ایٹم بم بنا کے کیا یہی کھجوریں کھانا تھیں؟ ایٹمی اسلحہ ہم نے طویل قربانیوں اور خوں بہا نے کے بعد حاصل کیا ہے۔ یہ اسلحہ ہم نے دشمن سے ٹکر لینے کو نہیں بنایا؟ شمالی کوریائی دانش سے کام لیا جا سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے