کرتار پور، کٹا، مرغی اور خارجہ پالیسی!

راقم کو اکثر خود پہ دانشور ہونے کا شبہ ہوتا تھا، یہ شبہ یقین میں کبھی نہ بدلتا اگر ملک میں شفاف اور منصفانہ انتخابات ہو کر تحریکِ انصاف کی حکومت نہ آ تی۔ اس وقت کے متوقع وزیرِ اعظم کی پہلی تقریر ہی سے بھانپ لیا تھا کہ حکومت کے مینی فیسٹو میں سب سے اوپر ‘خارجہ پالیسی’ رکھی ہے۔

حکومت کے پہلے سو دن پورے ہونے کا انتظار بھی جاری تھا اور نو حاصل شدہ دانشوری کے تحت یہ بھی یقین تھا کہ سو دن بعد اس ہیٹ سے جو کبوتر نکلے گا وہ ‘خارجہ پالیسی’ کے پر لگا کر ہی اڑ رہا ہو گا۔ وہی ہوا، سو دن گزرے اور کرتار پورے کا لانگھہ کھل گیا۔ میں چونکہ سرحدوں وغیرہ کو بالکل نہیں مانتی اس لیے بےحد خوش ہوئی۔

خوشی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اب شاید ہمیں بھی اجمیر شریف اور دہلی جانے سے کوئی نہیں روکے گا۔ ہم بھی اپنے دادا پیر کی قبر دیکھ آئیں گے اور اگر مزید نرمی ہوئی تو اپنے پرکھوں کی قبروں پہ فاتحہ بھی پڑھ آئیں گے۔ آگرے کا قلعہ بھی دیکھ لیں گے اور الور کی وہ جادوئی ریاست بھی جہاں ہمارے پھپھا منصرم محلات تھے اور ان کے گھر کی خواتین دوپٹوں میں منہ چھپا چھپا کے اجنتا ایلورا کی غاروں کو چپکے چپکے دیکھ آنے کااعتراف کیا کرتی تھیں۔

کیرالہ کے ساحل اور کنول کے پھولوں سے ڈھکے تالاب، بنارس کی صبحیں اور اودھ کی شامیں، لکھنؤ کے چکن کاری کے کرتے اور کلکتے کی کانجی ورم کی ساڑھیاں اور کڑے، دلی کی نہاری اور مرزا غالب کا مزار، نظام الدین اولیا کے مزار کی قوالیاں اور فتح پور سیکری کے راستے، سب والہانہ بلانے لگے اور لگا کہ 70 سال سے بھڑکتی یہ آ گ ٹھنڈی ہونے والی ہے۔

اب تک حکومت پہ جو جو تنقید کی تھی، اس کا سوچ سوچ کر خود سے نفرت سی ہونے لگی اور دل ہی دل میں تائب ہوکر سوچا کہ اپنی دانشوری جو کہ اصل میں بد گمانی اور تشکیک کا مرض ہے اٹھا کر طاقِ نسیاں پہ رکھ دی جائے اور اچھی اچھی باتیں کی جائیں۔ اسی سرخوشی میں تھی کہ ہندوستان کی طرف سے سرد مہری کے بادل اٹھے اور ساری گرم جوشی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

ہندوستانی سرکار کو اپنی سکھ آبادی پہ شک ہے اور پاکستان پہ تو ظاہر ہے یقین ہے کہ یہ کسی مار پہ ہیں۔ ایک بار سرحد پار کے کسی دوست نے کسی ‘مجوزہ’، ‘گریٹر جاٹ ریاست’ کا بھی ذکر کیا تھا جو ‘خالصتان تحریک’ کا توڑ تھی۔ یعنی اگر کسی طرح خالصتان وجود میں آجاتا تو اس کے ساتھ ‘مغربی پنجاب’ اور ‘آزاد کشمیر’ کو ملا کر ایک الگ ریاست کا شور مچایا جاتا جو خا لصتاً نسلی بنیادوں پہ بنائی جاتی۔ گویا ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔

ایسی باتیں سن کر میری سٹی گم ہو جاتی ہے اور میں گھبرا کے ‘مرغبانی کے زریں اصول’ کی ورق گردانی کرنے لگتی ہوں۔ یہ کتاب، ان چند کتابوں میں سے ہے جن کو میں نے بارہا پڑھا مگر آج تک نہ سمجھ سکی۔ ایک تو یہ کہ مرغیوں کا خاندان ہی عجیب ہوتا ہے، چار مرغیاں اور ایک مرغا، اس پہ جن بنیادوں پہ ان کا گھر تعمیر کیا جاتا ہے اس سے مجھے شدید اختلاف ہے۔

اب اختلاف کا تو یہ ہے کہ جسے اختلاف کرنا ہو، وہ ہرصورت کرتا ہے۔ کل ہی کی بات دیکھ لیجیے، ہمارے فاضل وزیراعظم نے کہا کہ بھینسوں کی بچھیاں جو کہ اصل میں کٹیاں ہوتی ہیں انھیں تو دودھ پلا کر پال لیا جاتا ہے مگر بچھڑے، جنھیں کٹا کہا جاتا ہے انھیں ذبح کر دیا جاتا ہے اور دودھ نہیں دیا جاتا وغیرہ وغیرہ۔

یہ صنفی امتیاز اور نسل پرستی کا خاصا جارحانہ مظہر ہے۔ مگر اختلاف کرنے والوں نے اس میں بھی اچے کے بچے نکال لیے کہ بچھڑا تو گائے کا بچہ ہوتا ہے، کٹا بھینس کی اولاد نرینہ کو کہا جاتا ہے۔ کسی نے یہ بھی کہا کہ کیا خان صاحب کو معلوم نہیں کہ اب گائے بھینسوں کی باروری زیادہ تر مصنوعی نسل کشی کے طریقے سے ہوتی ہے اور اس طریقے میں کٹیاں ہی پیدا کی جاتی ہیں، یعنی سیکس ٹیسٹڈ سیمن استعمال ہوتا ہے۔ کسی نے کہا کہ ایسے منصوبے تو ہر حکومت نے دیے، یہ کون سی نئی بات ہو گئی۔

کرتار پور راہداری کھولنے کے بعد سے میں خود کو خان صاحب کی بے ربط گفتگو کی صفائیاں دینے پہ مامور پاتی ہوں تو میرے عزیز ہم وطنو! خان صاحب کی اس ساری گفتگو کا مطلب یہ تھا کہ وہ دیہی معیشت کی مائیکرو سپورٹ کریں گے اور، سبسڈایزڈ قیمت پہ دیسی مرغیاں اور بیف فارمنگ کے لیے سہولیات فراہم کریں گے۔

باقی رہی بات کہ ڈالر مہنگا ہو گیا یا پٹرول کی قیمت بڑھ گئی تو آپ کو پہلے ہی دن کہا تھا نا کہ آ پ نے گھبرانا نہیں ہے۔ ان شاء اللہ ہم جلد ہی پورے ملک کو چوبرجی بنا دیں گے اور ہر سرحد ایک ساٖفٹ سرحد ہو گی۔ تین سو دن مزید گزرنے دیجیے۔ شکریہ!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے