تصوف اور علمائے اہل حدیث کے نقطہ ہائے نظر کی تفہیم

اس باب میں مختلف علما کی تحریروں کے مطالعے سے مَیں جو کچھ سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ اصل چیز تزکیۂ نفس اور مرتبۂ احسان کا حصول ہے جس پر اہل اسلام میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ زہد و ورع کے اعلیٰ تر مراتب کا حصول انھی طریقوں سے ممکن ہے جو رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرامؓ سے منقول ہیں ۔

اس کے بعد رہ جاتا ہے صوفیانہ ڈِسکورس جس کی اپنی اصطلاحیں اور لفظیات ہیں ؛ اس باب میں دو گروہ ہیں : ایک انھیں کلی طور رد کرتا ہے کہ ان کی حاجت ہی کیا ہے ؟ جب کہ دوسرے کی نظر میں یہ [تزکیہ و احسان] بھی دیگر علوم و فنون کی مانند ہے ؛ جب اسے مدون کیا گیا تو اس کی اصطلاحیں وجود میں آ گئیں جن کی اصل کتاب و سنت میں موجود ہے ، پس ان کے استعمال میں حرج نہیں ؛ نیزوہ تمام اشغال اور طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں جو بدعت نہ ہوں ۔

میری نظر میں یہی دوسری راے قرین صواب ہے کیوں کہ ’’ لا مشاحۃ فی الاصطلاح ‘‘ کبار سلفی اور اہل حدیث علما نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے جن میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، علامہ حاٖفظ ابن قیم ، شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی ، نواب سید صدیق حسن خان ، امام عبدالجبار غزنوی ، حافظ محمد لکھوی ، مولانا ثناءاللہ امرت سری ، سید داؤد غزنوی اور محدث حافظ عبداللہ روپڑی رحمھم اللہ کے اسماے گرامی خصوصیت سے لائق ذکر ہیں ؛ یہ تمام علما تصوف کو کلیتاً مسترد کرنے کے بجاے اس میں صحیح اور غلط کی تقسیم کرتے ہیں ۔ تاہم بعض متاخرین بہ وجوہ پہلی راے کو راجح سمجھتے ہیں اور اس وقت مسلک اہل حدیث کے وابستگان میں اسی کو غلبہ حاصل ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے