پنجاب کے وزیر چوہدری ظہیر الدین کون ہیں ؟ انٹرویو

سینئر پارلیمنٹیرین اور پنجاب کابینہ میں پبلک پراسیکوشن کے وزیر چوہدری ظہیر الدین سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے سو دن پورے ہونے پر پنجاب حکومت اور ان کی وزارت کی کارکردگی ، قومی امور اور فیصل آباد کے مقامی ایشوز پر ایک خصوصی انٹرویو میں‌ پہلا سوال سو دن کی کارکردگی پر کیا گیا جس کے جواب میں انہوں نے کہا سو دن کا چلینج غیر روایتی طور پر کیا گیا تھا جبکہ راویتی طور پر کچھ بھی کیا جا سکتا تھا. سو دن میں حکومت نے گائیڈ لائن دینا تھی، اس طرح قبل ازیں نہیں ہوا تھا مگر پی ٹی آئی نے قوم کو آگاه کرنا تھا کہ ہماری ہینڈی کیپس کیا ہیں اور اس سے نکلنے کے لیے ہم یہ طریقہ اختیار کر رہے ہیں اس کے لیے جو پہلے سو دن ہوتے ہیں، وہ وار فٹنگ پر کام کرنے کے ہوتے ہیں، اس میں کامیابی کے ساتھ ہم نے مرکز سے گائیڈ لائن لی ہے اور صوبائی سطح پر کارکردگی چند دن تک سامنے آ جائے گی ، ہم نے خالی خزانہ سے کیسے ٹیک آف لینا ہے اور ایک ڈی ایم جی این ( ازراہ مذاق این کا اضافہ کیا گیا) جو تیس سالوں میں تخلیق کر دی گئی تھی، اس نے چاروں طرف ابھی تک اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں پولیس میں،سیکرٹیریٹ میں اور بیورو کریسی میں بھی ، ان سے نجات کس طرح حاصل کرنی ہے.

یہ افسران ریاست کے اہلکار نہیں بلکہ ن لیگ کے کار خاص کے طور پر کام کرتے ہیں۔ شریف برادران نے اپنے دور حکومت میں ریاست کے نہیں بلکہ اپنے وفادار افسر پیدا کیے،اس قسم کے افسران تقریباً ہرشعبے میں موجود ہیں، انہیں سسٹم سے باہر کرنا ممکن نہیں ہے ، اس لیے ہم کوشش کررہے ہیں کہ انہیں ایک مخصوص پارٹی کے اثر سے باہر نکالا جائے اور جو محض شریف برادران کے میر منشی ہیں حالانکہ انہوں نے پاکستان سے وفا داری کا عہد لیا ہے

ہم چاہتے ہیں انہیں` مشرف بہ پاکستان` کیا جائے۔ اس کے لیے ہم نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے انتقامی یا امتیازی رویے کا احساس ہو، مثلاً کیپٹن (ر) عثمان الزامات کی زد میں ہیں، ہم نے انہیں فارغ نہیں کیا بلکہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کا ڈائریکٹر جنرل بنا دیا ہے کیونکہ ہم دستیاب افسروں سے کام لینے اور ان کے ساتھ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ہمارے اس طرح کے رویے سے نہ صرف بیورو کریسی اور ہمارے درمیان اعتماد بحال ہوگا بلکہ عوام کو بھی بیورو کریسی کا مختلف روپ دیکھنے کو ملے گا۔ انشا اللّہ سو دن کے اپنے اہداف کو پورا کرنے ، مسائل پر قابو پانے کے لیے اور وسائل پیدا کرنے کے لیے اسی طرح محنت کی جائے گی جیسے گزشتہ پانچ سال میں کے پی کے میں کی گئی تھی.

سو دن کے حوالے سے ایک خصوصی بات کروں گا کہ جس نے کرپشن کرنی ہو وہ اپنی حکومت کے آغاز میں ہی اس کی بنیاد رکھ دیتا ہے، پچھلی حکومت نے اپنے پہلے سو دنوں میں سے چند دنوں کے اندر ہی پانچ ارب کسی پیشگی آڈٹ اور منظوری کے بغیر ا ربوں روپے گردشی قرضوں کے نام پرمیاں منشا کو مال غنیمت سمجھ کر لٹا دیا تھا جبکہ اپنی ذاتی تشہیر پر پانچ سال میں پچاس ارب روپیہ خرچ کر دیا. لٹانا تو دور کی بات سو دن اس بات کے مظہر ہیں پرائم منسٹر ہاؤس اور چیف منسٹر ہاؤس کے اخراجات کم کیے گئے ہیں ، چیف منسٹر ہاؤس کے اخراجات ایک ماہ میں ستاون لاکھ سے آٹھ لاکھ کیے گئے ، اسی طرح وزیر اعظم ہاؤس میں اخرجات کم ہوئے ، ہم نے چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کی پالیسی اپنائی ہے ، جس سے پاکستان سونے کی چڑیا بن جائے گا .

حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات میں مسلسل کشیدگی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا اپوزیشن کا اپنا کام اور حکومت کا اپنا تاہم کسی حکومت کے اپوزیشن کے ساتھ اسی وقت بہتر تعلقات قائم ہوتے ہیں جب وہ حکومت مائل بہ کرپشن ہو۔حکومتیں اس وقت اپوزیشن کے ساتھ بہتر تعلقات بناتی ہیں جب انہیں اپنی کرپشن پر پردہ ڈالنا مقصود ہو۔ہمارا دامن کیونکہ صاف ہے ، اس لیے سابق دور کی طرح فرینڈلی اپوزیشن ہماری ضرورت ہے اور نہ ہی ہم اپوزیشن کو فرینڈلی بنانے کی کوشش کریں گے.ہم اپوزیشن کی طرف سے مثبت تنقید کا تو خیر مقدم کریں گے لیکن اگر کوئی اپنی بدعنوانیاں چھپانے کی غرض سے شور مچائے گا تو یاد رکھے کہ اس کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوگا کیونکہ ہم نے تو ووٹ ہی کرپشن کا قلع قمع کرنے کے وعدے پر لیا ہے۔

کرپشن کے خاتمے کے لیے حکومتی لائحہ عمل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہمارے ملک میں بدعنوانی کا جو دور دورہ ہے اس پر یہ شعر صادق آتا ہے :

بے وفائی تو کتنی خود رو ہے
اگتی جاتی ہے جتنی کاٹی ہے

کرپشن کے خلاف تیار کیے گئے ہمارے لائحہ عمل کے مطابق ان لوگوں کو ٹارگٹ کیے بغیر کرپشن ختم نہیں ہوسکے گی جو لوگ ماضی میں بے دریغ کرپشن کرتے ہوئے ملک کو لوٹتے رہے۔ ہمارا پروگرام کرپٹ لوگوں کو اس حد تک نشان عبرت بنانا ہے کہ آئندہ لوگوں کے پاس نہ صرف کرپٹ لوگوں بلکہ کرپشن سے نفرت کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ ہو۔ اسی لیے عمران خان یہ بات بار بار دہراتے ہیں کہ نہ تو وہ کسی کو این آر او دیں گے اور نہ ہی ان سے کوئی این آر او کی توقع رکھے.

پنجاب میں پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کی وزارت کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے چوہدری ظہیر الدین نے بتایاکہ پنجاب میں 2006 میں پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے قیام کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا تھا۔ قبل ازیں صرف برطانیہ میں رائل پراسیکیوشن سروس کے نام سے اس طرح کا ادارہ کام کر رہا تھا۔ برطانیہ کے بعد پاکستان دوسرا ملک تھا جہاں پبلک پراسیکیوشن کے لیے ایک علیحدہ محکمہ قائم کیا گیا۔ یہ محکمہ اپنے قیام کے ابتدائی دنوں میں ہی تھا کہ یہاں شہباز شریف کی حکومت قائم ہو گئی جس کے بعد یہ ادارہ ان مقاصد سے دور ہوتا گیا جن کے لیے یہ قائم کیا گیا تھا۔

سابق حکومت کے دور میں اس ادارے کو عوام کی خدمت کی بجائے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ سابق حکمرانوں نے ذاتی مقاصد کے تحت ہی سندھ کے بدنام زمانہ ڈی آئی جی رہ چکے رانا مقبول جیسے بندے کو پہلے اس محکمے کا سیکریٹری لگایا ، بعد ازاں اسی نے وزیر اعلیٰ کے سپیشل اسسٹنٹ کی حیثیت سے اس محکمہ کی نگرانی کی۔رانا مقبول کی نگرانی میں پنجاب پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کی ترجیح ماڈل ٹاؤن کیس میں شہاز شریف اور ان حواریوں کا کا دفاع بنی رہی ، اسی وجہ سے یہ محکمہ ضرورت اور اہمیت کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکا۔ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کا مقصد صاف، شفاف اور بلاامتیاز انصاف کی فراہمی پر مبنی نظام کا قیام اور استحکام ہے۔ پولیس یہاں انگریز دور سے رائج گھسے پٹے طریقوں اور روایتوں کے مطابق تفتیش کرتے ہوئے کسی مقدمے کا چالان عدالت میں پیش کرتی ہے۔ ان چالانوں میں جھوٹ اور سچ ملا جلا ہوتا ہے۔ اگر عام فہم زبان میں بات کی جائے تو پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کا کام ان چالانوں کو چھلنی میں سے گذار کر جھوٹ اور سچ کو علیحدہ علیحدہ کرنا ہے.

اس ضمن میں ماڈل ٹاؤن کا واقعہ ایک مثال ہے جس میں سو لوگوں کو گولیاں لگیں.دس لاشیں گریں جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں مگر اسی ڈیپارٹمنٹ کی متذکرہ کمزوریوں کی وجہ سے انصاف کی فراہمی مشکل ہوئی .سابقہ حکمرانوں نے پنجاب پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کو صرف اپنی کھال بچانے کے لیے استمال کیا تھا. مجھے جب وزارت ملی تو آدھے سے زیادہ ڈسٹرکٹس خالی تھیں.ہم نے اس کی تکمیل کا آغاز کر دیا ہے. سینٹر فار پروفیشنل ڈیویلپمنٹ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے.پچھلے دنوں ایک پاسنگ آوٹ بھی ہوئی جس میں بہت اچھے لڑکے لڑکیاں شامل تھے. ہم انٹرنیشنل فنڈ لے کر ڈسٹرکٹس میں دفاتر بنائیں گے جہاں ٹریننگ کا اہتمام کیا جائے گا.

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے یو ٹرن پالیسی کے دفاع پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہماری مخالف جماعتیں یو ٹرن کو تحریک انصاف کے لیے کوڑے کے طور پر استعمال کر رہے حالانکہ ری تھنکنگ اچھائی ہے برائی نہیں ، اس کو اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو واضح ہو گا کہ اگر بھٹو مشرقی پاکستان کے حوالے سے اپنے فیصلے پر یو ٹرن لے لیتے ،ضیاء الحق افغان جنگ کا حصہ بننے سے قبل ری تھنکنگ کر لیتے اور نواز شریف فوج پر حملہ آور ہونے سے قبل پھر جتنا لوٹ لیا کو کافی جان کر کرپشن کرنے کے عمل پر یو ٹرن لے لیتے تو پاکستان قومی سانحات سے بچ جاتا .

کرتارپور پاک بھارت سرحدی راہداری کے متعلق ایک سوال کے جواب میں چوہدری ظہیر الدین نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرے آباؤ اجداد کا تعلق کیونکہ بھارت کے ضلع گرداسپور سے ہے، اس لیے ڈیرہ بابا نانک بھارت سے کرتار پور صاحب پاکستان تک بننے والی سرحدی راہداری سے میری وابستگی جذباتی بھی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے وجود میں آنے والی متحدہ پنجاب کی اسمبلی میں میرے دادا چوہدری علی اکبرگرداسپور اور نارووال کے علاقوں پر مشتمل حلقے سے پہلے 1921-23 اور 1924-26 تک ممبر پنجاب قانون ساز کونسل رہے اور پھر 1937-45 اور 1946-47 میں ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ گرداس پور میں ہمارا آبائی گاؤں ’’دھمرائی‘‘ ڈیرہ بابا نانک سے تقریباً دس کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔تقسیم کے وقت وہاں سے ہمارا خاندان انتہائی مشکل حالات میں کشت وخون میں نہایا ہوا پاکستان داخل ہوا تھا۔ اس دور کی یادیں بہت تلخ ہیں مگر ان یادوں کو بھلا کر ہمیں اس خطے کے روشن مستقبل کو اپنا مرکز نگاہ بنانا ہوگا۔ اس خطے کا مستقبل اسی وقت روشن ہوگا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان پرامن تعلقات قائم ہوں گے۔ ڈیرہ بابا نانک تا کرتار پورصاحب راہداری پاک بھارت پرامن تعلقات کے حوالے سے سنگ میل ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ ہمارا اعزاز ہے کہ اس سنگ میل کی بنیاد تحریک انصاف اور عمران خان کے دور حکومت میں رکھی جارہی ہے۔

سی پیک پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین کی دوستی دیرینہ بھی ہے اور پائیدار بھی، سی پیک پاک چین دوستی کا عظیم شاہکار ہے۔ سی پیک منصوبہ کسی حکومت کا کارنامہ نہیں بلکہ ریاست کا ایسا اثاثہ ہے جس کی تعمیر کے لیے ہمارے ملک کا انتخاب اس کی جغرافیائی حیثیت اور اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔ اس خطے میں سی پیک نہ تو افغانستان، نہ بھارت اور نہ ہی ایران میں تعمیر ہو سکتا ہے۔سی پیک کی تعمیر کیونکہ صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے اس لیے اسے کسی سابقہ حکمران کا نہیں بلکہ پاکستان کا اعزاز سمجھنا چاہیے۔ بدقسمتی سے سابق حکمرانوں نے دیگر اداروں اور ملک کے دیگر وسائل کی طرح سی پیک کو بھی عوامی و ریاستی مفادات کی بجائے اپنے ذاتی اور کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ یہ اس ملک کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں بروقت تحریک انصاف اور عمران خان کی حکومت قائم ہو گئی اور سابقہ حکمرانوں کی طرف سے ملک کے وسائل کو لوٹنے کا جو سلسلہ جاری تھا اس کا خاتمہ ہو سکا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ایسی بہت سی باتیں منظر عام پر آتی رہیں گی کہ کس طرح ذاتی مقاصد کے تحت سی پیک منصوبے کو غیر شفاف بنانے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔

سی پیک ایک تجارتی راہداری ہے جس سے فی الوقت تو ہمیں محصولات حاصل ہوں گے مگر آنے والوں وقتوں میں اس راہداری کو استعمال کرتے ہوئے یہاں بیرونی سرمایہ کار آئیں گے، ملک میں صنعتوں کا جال بچھے گا ، لوگوں کو وسیع پیمانے پر روزگار ملے گا اور یہاں کی صنعتوں میں تیار مال کی برآمدات سے ملک کوقیمتی زرمبادلہ حاصل ہو سکے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے