اسلامی قانون یا انسانی قانون

قانون معاشرے کی ایک فطری اور بنیادی ضرورت ہے، کسی قوم ،خطے ،سلطنت ،معاشرے کا قوانین کی عملداری کے بغیر زندگی گزارنا ممکن نہیں۔گزشتہ ادوار سے لیکر حالیہ دور تک ،ادوار کے اس طویل سلسلے کی کوئی ایک اکائی قوانین کی موجودگی سے خالی نہیں ۔

دنیا ارضی میں قوانین ،ثقافت ،تہذیب اور تمدن اپنی وضع اور طبیعت میں مختلف ضرور ہیں لیکن قانون کی ضرورت میں سب یکساں ہیں.

آغاز حیات سے ہی قوانین تمام انسانوں کی فطری اور اجتماعی ضرورت رہا ہے جبکہ یہ بات بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ گزشتہ ادوار سے اب تک کے دور میں قوانین کو سقم سے دوچار ہونا پڑا اور تغیر اور تبدل کےساتھ نسل در نسل منتقل ہوتے رہے لیکن تاریخی شواہد نے طاقتور طبقے کا مکروہ چہرا بھی عیاں کیا ہے جنہوں نے قوانین کو انسانی بنیادوں پر استوار کرنے کی بجائے اسے لسانی قومی اور طبقاتی بنیادوں ہر استوار کیا.

لیکن مرور زمانہ کے ساتھ اس میں بہتری آتی گئی اور علم و شعور کے چراغ تلے یہ قوانین علمی اور فلسفیانہ بنیادوں پر استوار ہوتے گئے اور آج اسی صورت میں موجود ہیں .

اسلامی قانون کو انسانی قانون کے مقابلے میں غیر معمولی حیثیت حاصل ہے جبکہ اس کی افادیت انسانی قانون کے مقابلے میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔اسلامی قانون کا آغاز خاندان،قبیلے کا محتاج نہیں تھا بلکہ یہ قانون تو آغاز بشریت کے ساتھ ہی اپنے بنیادی تعلیمات کے ساتھ موجود رہا ،ملک پاکستان میں اسلامی قانون کی اہمیت غیر معمولی نوعیت کی حامل ہے چونکہ اس خداداد ریاست کے قیام کی بنیاد ہی اسلامی قانون کی بالا دستی پر تھی اور پاکستان کے تمام دساتیر ، دستور پاکستان 1956 ، دستور پاکستان 1962 اور دستور پاکستان 1973 (جو مختلف ترمیمات کے ساتھ ابھی باقی یے ) میں اسلامی قانون کی حاکمیت واضح ہے .

اول روز سے پاکستان میں اسلامی قانون کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا اور ہر ممکن کوشش کی گئی کہ پاکستان میں کوئی ایسا قانون نہ ہو اسلامی قانون کے متصادم ہو اور یوں اسلامی تعلیمات مخالف قانون کے اختراع کا دروازاہ بند ہو گیا
ملک پاکستان میں اسلامی قانون کے نفاذ پیش نظر اسلامی اداروں کے قیام کو یقینی بنایا گیا اور 1956 میں اسلامی نظریاتی قونصل کے نام سے اسلامی ادارے کا قیام اور جنرل ضیاءالحق کے دور میں 1980 میں فیڈرل شریعہ کورٹ کا قیام اسلامی قانون کی بالا دستی کے اقدامات کے تناظر میں تھا لیکن ان تمام تر اقدامات کے باوجود اسلامی قانون میں بہت سے مسائل موجود ہیں جن میں اجتہاد کی احتیاج ناگزیر ہے .

پاکستان میں قانون کو اسلامی سانچے میں تب ہی ڈھالا جا سکتا ہے جب اسلامی قانون کی مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے گا ،پاکستان میں مختلف مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں جن کی فقہی کتب بھی مختلف ہیں اور اس پر مستزاد جامع فقہ کا فقدان اسلامی قانون کے نفاذ میں حائل رکاوٹ ہے ،فرقہ واریت اور مسالک میں موجود تعصب کی فضا بھی جامع حکمت عملی میں حائل ہے جس سے مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن نہیں ہو پا رہا .

اسلامی فقہ میں جدیت جب تک نہیں آئے ، فقہ اسلامی کے لیئے رستے مسدود ہوتے رہیں گے ، گزرتے ادوار کے ساتھ تمام تقاضے بھی تبدیل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے فقہ اسلامی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا بھی ضروری ہے .

فقہ میں موجود جزئی مسائل کا غیر واضح ہونا بھی ایک اہم رکاوٹ ہے جس کا حل انتہائی ضروری ہے جیسے ، دیت، توہین، میں حدود قیود کا واضح نہ ہونا اور مرتد میں بغیر کسی قید کے حکم کا اطلاق کرنا۔ یہ مسائل توجہ طلب ہیں جن میں دقت کرنا ضروری ہے .

اس کے علاوہ دیگر مسائل کو بھی حل کرنے کی ضرورت ہے جس کے نتیجہ میں اسلامی قوانین کی بالا دستی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور اسلامی جمہوریہ کو مکمل اسلامیانے کا رستہ ہموار ہو سکتا ہے

الشریعہ اکیڈمی کی طرف سے دئیے گئے مقالہ ( قانون کو اسلامی قوانین کے سانچے میں ڈھالنے میں حائل مشکلات ) پر ہماری طرف سے بھیجا گیا مقالے کا خلاصہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے