سعودیہ کے پاس ایک مگر پاکستان کے پاس”تین حرم” موجود ہیں-

لوگ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب کی آمدن کا ایک ہی سبب ہے یعنی "پٹرول”-

ایسا نہیں ہے بلکہ سعودیہ کی آمدن کا بڑا ذریعہ”حرمین شریفین” ہیں- پٹرول کا ذخیرہ ایک دن ختم ہوسکتا ہے لیکن حرم کی آمدن تاقیامت ختم نہیں ہوسکتی- جب تک دنیا میں مسلمان موجود ہیں، انکو حرمین کی زیارت کیلئے جانا ہی جانا ہے- بھری جیب لےکر جانا اور جیب وہاں خالی کرکے آنا ہے-

سعودی عرب چاہےعمرہ وحج کی کوئ فیس بھی نہ لے مگر تجارت کوخودبخود فروغ ملتا ہے اور کاروبار بڑھتا ہے-(اندازہ کیجئے کہ حرم کے گرد سینکڑوں دکانیں حجام حضرات کی ہیں جو زیادہ تر رحیم یارخان سے تعلق رکھتے ہیں- ایک دکان کا سالانہ کرایہ، 3 لاکھ ریال تک ہے جبکہ سعودی کفیل کو ماہانہ 5ہزارریال تک الگ سے دیا جاتا ہے- اس سب کے علاوہ، حکومت کے ٹیکسزبھی اداکرنے ہوتے ہیں-وہاں لینڈ کرنے والی ہرائرلائن نے بھی کرایہ دینا ہوتاہے-نوٹ کیجئے کہ فقط "حرم” کی وجہ سے ملکی اکانومی کو کتنا بوسٹ ملتا ہے؟)-

دنیا بھر میں پھیلی ہوئ معاشی ناانصافی نے مذہبیت کو فروغ دے دیا ہے-چنانچہ، پہلے فقط حج کے موسم میں حرم سے آمدن ہوا کرتی تھی مگرآجکل سارا سال عمرہ سیزن جاری رہتا ہے- غریب لوگ، اپنے معاشی مسائل خدا سے حل کرانے اپنی باقی پونجی جھونک کرزیارات کو آتے ہیں تو امیر لوگ، غریبوں میں نیک نامی کمانے، یہی داؤ آزماتے ہیں(الا ماشاء اللہ)- یہ صرف مذہب اسلام کے ساتھ خاص نہیں بلکہ دنیا بھر میں مادی بے چینی، روحانی یاترا بزنس کے فروغ کاسبب بن رہی ہے-

آمدم برسر مطلب!

سعودی عرب کے پاس صرف ایک مذہب کا قبلہ ہے مگر پاکستان کے پاس تین مذاہب کے حرم موجود ہیں-ہمارے پاس بدھ مذہب ، سکھ مذہب اور قادیانی مذہب کےمرکزی مقدس مقامات موجود ہیں- (راجہ اشوکا کی راجدھانی یعنی ٹیکسلا وغیرہ، ننکانہ صاحب،کرتار پوروغیرہ، اورربوہ و جنتی قبرستان)-

کاش کہ پاکستان کو کوئ مخلص اور فہیم قیادت میسر ہو توملکی معیشت سدھارنے کےلئے خدا نے بے شمار امکانات اس ملک کو عطا کئے ہوئے ہیں- تسلیم کہ دنیا بھرکے بدھ مت کے 50 کروڑ ، سکھ مذہب کے 3 کروڑ اور جماعت احمدیہ کے 20 لاکھ پیروکارمل کر بھی پونے دوارب مسلمان برابر نہیں ہوتے مگر مذکورہ کمیوںیٹیز، خوشحال لوگ ہیں پس زائرین کا نسبت تناسب بھی متفاوت ہوگا- دوسرے یہ کہ حج وعمرہ کا خاص سیزن ہوتا ہے جبکہ مذکورہ بالا تینوں مذاہب کے پیروکار، سارا سال ہماری اکانومی کو سپلائ کرتے رہیں گے-

الغرض، مذہبی مقدس مقام وہ "سونے کی کان” ہوتا ہے جسکی آمدن کے سوتے کبھی نہیں سوکھتے-پھرہم پاکستانیوں کوتو خدا نے "بائ ڈیفالٹ” مجاوری کی صفات بھی عطا کی ہوئ ہیں-ہم لوگ توناکارہ ٹریکٹر تک پر ہری جھنڈی لگا کراسے زیارت گاہ بنا سکتے ہیں تو”اوریجنل زیارت گاہوں” کو کیا سے کیا روپ دیا جاسکتاہے –

میں سمجھتا ہوں کہ یہی موزوں وقت ہے اس ایشو کی طرف توجہ دینے کیلئے- قسمت سے ایسا حکمران بھی میسرآگیا ہے جو خود بھی "ننگے پیرزیارت” کا بانڈ کیش کراچکا ہے اور جسکے لئے "مذہب بطورپالیسی ٹول” کا سبجیکٹ،اسکے گھر کی لونڈی ہے-

"اصل پالیسی سازوں” سے التماس ہے کہ امن وآشتی پر مبنی ماحول بنائیں – یقین کیجئے کہ یہ مرغیوں، انڈوں ، کٹوں وغیرہ سے کہیں زیادہ منافع بخش "بیمہ پالیسی” ہے-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے