بیس سال پہلے

زیادہ عرصہ پہلے نہیں صرف بیس سال پہلے تک مرغیاں پالنا، بکریاں پالنا اور گھر میں سبزی کاشت کرنا عام روایت تھی. مجھے یاد ہے سکول سے واپس آکر میں سب سے پہلے انڈوں پر بیٹھی مرغی اٹھا کر اشتیاق سے دیکھتی تھی کہ کتنے چوزے نکلے ہیں. ننھے منے چوزوں سے کھیل تماشے کر کے خوشی ملتی تھی. دیکھتے ہی دیکھتے چند مہینوں میں وہ بغیر کسی خاص تردد اور سرمایہ کاری کے وہ دانہ دنکا اور بچی کھچی روٹیوں کے ٹکڑے کھا کر جوان ہو جاتے. مرغیاں انڈے دیتیں اور مرغوں کو مہنگے داموں فروخت بیچ کر پیسہ کماتے .

اس وقت بھی ایک زندہ دیسی مرغے کا ریٹ ہزار روپے سے کم نہیں ہے. لیکن دس بیس سالوں کی "ترقی کی یلغار اور شاہانہ لائف سٹائل” نے اس روایت کا خاتمہ کر دیا اور اب غیر تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر کمزور گھرانے بھی ایسے مشاغل کو معیوب گردانتے ہیں ورنہ گھریلو سطح پر خوراک اور صحت مند خوراک کی پیداوار اور دستیابی کسی نعمت سے کم تو نہیں.

ہمارے والدین کا یہ حال ہے کہ وہ اولاد کو دس جماعتیں پڑھا کر کسی کے ہاں پندرہ ہزار کی ملازمت کروا کر فخر محسوس کرتے ہیں اور پڑھائی میں خاطر خواہ دلچسپی نہ رکھنے والے بچوں کے رحجانات سمجھنے کی بجائے ان پر ڈگریوں کا بوجھ ڈال کر دفتروں میں جی حضوری کے لیے بھیج دیتے ہیں اور کاروباری رحجانات کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں. جبکہ کاروبار خصوصاً مائیکرو فنانس اور منی بزنس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے. یہ تنگ نظری اور جہالت کے سوا کچھ نہیں.

جیسا کہ عمران خان نے اشارہ دیا کہ پولٹری بل گیٹس کا منصوبہ رہا یے. یہ بات قابلِ غور ہے. ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کی نظر میں کاروبار حقیر یا امیر نہیں. وہاں لوگ گریجویشن کے بعد فوراً کاروبار یا چھوٹے موٹے بزنس کی شروعات کر کے خود انحصاری اور خود کفیلی کے حصول کی کوشش کرتے ہیں. امریکہ کی سب سے بڑی ڈیپارٹمنٹل چین walmart کے بانی sam Walton نے کاروبار کے آغاز میں اپنی ماں کے ساتھ مل کر دودھ اور انڈے تک بیچے ہیں. بلکہ ہر بڑے کاروباری نے اپنے بزنس کا آغاز چند ٹکوں سے ہی کیا ہے. سام والٹن اپنی کتاب ” میڈ ان امریکہ” میں لکھتا ہے..

"اگر میرے سٹور کے باہر ایک سینٹ کا سکہ پڑا ہو اور حقیر جان کر کوئی اسے نہ اٹھائے تو میں جا کر اسے اٹھا لوں گا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ ایک سینٹ کی قیمت کیا ہے”

لیکن ہمارے گھرانوں اور قومی سطح پر بچت، خود انحصاری یا پیداواری رحجانات کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے. ہماری مائیں انڈے مرغیاں بکریاں پال کر، گوبر کے اوپلے بنا کر کسی نہ کسی طرح گھر کی معیشت کو گراں قدر سہارا دیتی تھیں. لیکن موجودہ پڑھے لکھے اور نام نہاد ترقی یافتہ زمانے نے ایسی روایات کو ذریعہ ندامت بنا کر رکھ دیا ہے. نتیجہ ہم ترقی یافتہ میں شامل تو نہ ہو سکے لیکن اپنے حصے کی خود انحصاری زمین اور سر پر خود کفیلی کا سائباں بھی گنوا بیٹھے.

یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہمارے یہاں نہ تو تیل کے کنویں ہیں نہ جدید ٹیکنالوجی کہ جسے بیچ کر پیسہ کمائیں گے اور آرام سے کھائیں گے. پاکستان کی سر زمین زراعت اور لائیو سٹاک کے لیے موزوں ہے. جلد یا بدیر اسی جانب متوجہ ہونا پڑے گا کہ بڑے بڑے انڈسٹریل پراجیکٹس یا سائنسی ادارے کے خواب تو اب قبل از ایک صدی تو پورے ہونے سے رہے.

شہباز شریف نے کچن گارڈن کا تصور دیا تھا. مجھے تو وہ بھی پسند آیا تھا. دل خوش ہوا تھا کہ کسی نے ہمیں بڑھے جھوٹے خواب دیکھانے، امداد یا قرضے دے کر فقیر بنانے کی بجائے حقیقت مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے ہمیں خود انحصاری کی جانب رواں کرنے کی کوشش کی ہے. عمران خان کا انڈے اور مرغی والا خیال بھی برا نہیں. غذائیت کی کمی کا شکار اس قوم کو اور کیا چاہیے اگر انہیں اپنے گھر سے ہی صحت مند انڈے اور گوشت دستیاب ہو جائے.

لیکن جسطرح انڈے اور مرغی کا مذاق بنایا گیا اس سے یہ گماں گزرتا ہے کہ مریم نواز کی میڈیا ٹیم اب بھی کس قدر متحرک اور مستعد ہے جو حکومت کی کسی بات کو بھی دیوانے کی بڑ ثابت کر سکنے کی خوب صلاحیت رکھتی ہے اور قوم بھی بغیر سوچے سمجھے اور غور کے آندھی تقلید کی بھر صلاحیت رکھتی ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے