نا سمجھی کی عمر بھی عجیب ہوتی ہے میں جب پانچ چھ برس کی تھی تو اماں نے گھر میں کچھ مرغیاں پال لیں میں نے پہلی مرتبہ جب اس مخلوق کو دیکھا تو ان پر بہت پیار آیا میرا دل چاہا اسے پکڑ کر اس سے کھیلوں اسے اپنے ہاتھوں سے دانہ کھلاؤں لیکن میں ان کی پھرتی کے سبب انھیں نہ پکڑ پائی۔
اب میں گھنٹوں ان کے پاس بیٹھی ان کا جائزہ لیتی رہتی دور سے دانہ ڈالتی کیونکہ قریب تو وہ آنا ہی نہیں چاہتیں تھیں لیکن رفتہ رفتہ وہ بھی مجھ سے مانوس ہو گئیں اور میرے دانہ ڈالنے کے وقت میرے ارد گرد گھومنے لگتیں اور اپنی مخصوص اداؤں سے مجھے تکتیں۔
جب دانہ ڈالتی تو میرے پاس ہوتے ہوئے بھی مجھ سے دور نہ جاتی اور میں ان پر محبت سے ہاتھ پھیرتی اور پھر یوں ہوا کہ ہماری دوستی ہو گئی اب وہ میرے ہاتھ سے دانہ چگتیں اور میں جہاں جاتی میرے پیچھے پیچھے آتیں۔
جانور بہت وفادار ہوتے ہیں تھوڑی سی محبت اور توجہ پا کر اپنے مالک سے مانوس ہو جاتے ہیں، ہم سب بہن بھائیوں کی ایک ایک مرغی تھی ہم نے ان کا نام بھی رکھا ہوا تھا میری مرغی کا نام مونا تھا میں مونا کہتی اور وہ کُڑ کُڑ کر کے جواب دیتی میں اسے گود میں اٹھا لیتی اسے پیار کرتی گلے لگاتی اور جہاں جاتی ساتھ ساتھ وہ بھی جاتی۔
سردیوں میں ہم ٹھنڈ سے بچنے اور وٹامن ڈی حاصل کرنے چھت پر جاتے تو مونا بھی میرے ساتھ ساتھ سیڑھیاں چڑھتی اوپر آ جاتی میں کھانا کھاتی تو اپنا آدھا کھانا اس کے آگے ڈال دیتی جس پر اکثر اماں سے ڈانٹ پڑتی۔
میں اماں سے کہتی اماں یہ بھی تو مجھے اپنا انڈا دیتی ہے یہ تو کبھی ناراض نہیں ہوئی آپ خواہ مخواہ ناراض ہوتی ہیں اس پر اماں مسکرا دیتیں اور کہتی تم تو پاگل ہو گئی ہو۔
ایک دن اماں نے کہا مونا اب انڈے نہیں دیتی کل ہم اسے زبح کریں گے میں نے گھر میں ہنگامہ کھڑا کر دیا لیکن اماں کے آگے ہماری کہاں چلتی تھی بھلا ،پھر میں نے مونا کو سمجھایا مونا پلیز تم کل ضرور انڈا دینا میں تمھیں کھونا نہیں چاہتی۔
اگلے دن جب میں جاگی تو مونا مجھے نظر نہ آئی میرے تو دل کی دھڑکن بڑھنے لگی بھاگی بھاگی اماں کے پاس گئی اماں اماں میری مونا کہاں ہے کہیں ہانڈی تو نہیں چڑھا دی آپ نے۔۔۔اماں بولی پگلی تو، تو جانتی ہے دادا ابو گاؤں گئے ہوئے ہیں اور ابا نوکری پر گھر میں کوئی مرد نہیں بھلا کون اسے زبح کرتا ۔!
میری تو جان میں جان آئی اور پھر اسے ڈھونڈنے نکل گئی کافی کوشش کے بعد دیکھتی کیا ہوں مونا گھر کے ایک ویرانے میں دبک کر بیٹھی مجھے پردے کے پیچھے سے گھور رہی ہے، میں اس کے پاس گئی اور اس سے گلے شکوے کرنے لگی ،میں اس سے اکثر باتیں بھی کیا کرتی تھی اور وہ بھی مجھے سمجھتی تھی جب بھی کسی بات پر دل خفا ہوتا اسے گود میں بیٹھا کر دل کی بھڑاس نکالتی وہ کر تو کچھ نہیں سکتی تھی لیکن بس مجھے معصوم نظروں سے حوصلہ دیتی۔
میں نے کہا مونا میری جان نکلی جا رہی ہے اور تم یہاں دبک کر بیٹھی ہو تو اچانک اس نے زور زور سے شور مچانا شروع کر دیا میں پریشان ہو گئی کہ یہ کیا ماجرہ ہے میں نے اسے حوصلہ دیا اور جیسے ہی اسے اٹھا کر گود میں ڈالنے لگی تو اس کے سنہرے بالوں کے نیچے مجھے انڈہ نظر آیا جسے دیکھ کر میں نے بے اختیار اسے گلے سے لگا لیا اور مونا اور انڈے کو لے کر اماں کے پاس بھاگتی ہوئی پہنچی تو اماں بھی خوش ہو گئیں اور مونا کے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے بولا اب اسے ہی لئے گھومو گی یا ناشتہ بھی کرو گی۔
میری تو خوشی کے مارے بھوک ہی اڑ گئی تھی میں اس سے بہت زیادہ مانوس ہو چکی تھی میرا بس نہ چلتا تھا کہ اسے سکول بھی ساتھ لے جاتی، پھر چند ماہ بعد مونا بیمار ہو گئی اور اسی بیماری میں ایک رات چل بسی زبح کرنے کی بھی نوبت نہ آئی ،میں تو رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی اماں نے کہا اب بس بھی کرو کل اور مرغی لے آؤں گی تمھارے لئے لیکن اماں وہ مونا جیسی تو نہیں ہو گئی نا۔۔۔!
پھر میں نے گھر کے آنگن میں اس کی قبر بنائی اور روز اس کی قبر پر گھنٹوں بیھٹی رہتی اسے میں آج تک نہیں بھلا سکی۔۔
مونا میرا بہت خیال بھی رکھتی جب بھی مجھے کوئی مارتا تو اپنی سخت چونچ سے مار مار کر برا حال کرتی اور اگر گھر میں کوئی اجنبی آ جاتا تو اس کو بھگا بھگا کر ہلکان کر دیتی جب تک ہم سامنے آ کر اسے نہ روکتے اسے بھگائے رکھتی ،اکثر لوگ کہتے یہ مرغی ہے یا کتا پال رکھا ہے گھر میں۔۔۔۔
نا جانے کیوں یہ لوگ عمران خان کی مرغیوں کے پیچھے پڑے ہیں مرغیاں تو بہت اچھی اور مفید ہوتی ہیں۔
جہاں تک مرغی ،کٹے اور بھینس کا تعلق ہے تو اس میں کوئی مضحکہ خیز بات نہیں چھوٹے طبقے اور چھوٹے پیمانے پر کاروبار کے لئے ترغیب دینا کوئی بری بات نہیں اس سے غریب طبقے کا فائدہ ہو گا اور ہمیں بھی دیسی مرغی اور دیسی انڈے کھانے کو ملیں گے اور تازہ اور معیاری گوشت ملے گا، گدھے گھوڑے کے گوشت سے بچ جائیں گے ،مختلف غلاظتوں سے بنی فیڈ سے پلنے والی مرغیوں سے بچ جائیں گئے اس طرح ہماری صحت بھی اچھی رہے گی۔
پاکستان کی ایک بڑی آبادی دیہی علاقوں میں بستی ہےاور ان کا روزگار بھی دیہی معیشت سے جڑا ہوا ہے ،دیہی معیشت میں انڈے مرغی کا بہت بڑا کردار ہے، ہم ہر بات میں منفی پہلو نکال لیتے ہیں فیس بک اور سوشل میڈیا پر اکثر لوگ شہری علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اگر وہ دیہی معیشت کے بارے میں تھوڑا جان لیں تو انھیں اس بات کا احساس ہو جائے گا کہ وہاں پر کس قسم کے مسائل اور ضروریات ہیں۔
اگرچہ انڈے اور مرغی سے لوگوں کی معاشی ضروریات تو پوری نہیں کی جا سکتیں لیکن کم از کم اس کے ذریعے ان کی معاشی مشکلات میں کسی حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔