آج اسلام آباد کے موسم میں معمول سے زیادہ خنکی ہے ، صبح تڑکے بستر سے نکلنے کا دل نہیں کرتا مگر قائد کی بات ”کام، کام اور کام…” ذہن کے کوندے سے لپکتا ہے اور ہم فوری بستر استراحت سے نکل جاتے ہیں ، معمول سے کچھ تاخیر سے احتساب عدالت پہنچا، جب کمرہ عدالت میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے کے لیے پہنچاتو میاں نواز شریف روسٹرم پر فلیگ شپ ریفرنس میں اپنے بیانات قلمبند کروا رہے تھے، بیانات قلمبند کرواتے ہوئے وہ عدالت کو بتا رہے تھے کہ ہمارا بزنس سیاست میں آنے سے قبل کا ہے، میں بزنس سے سیاست میں آیا، بھٹو نے جب اتفاق فاونڈری قومیائی تو ہمارے پاس کچھ نہیں بچا ، 1979 میں جب اتفاق مل بزنس میں ناکام ہوئی تو ہمیں ڈوبا ہوا کاروبار واپس کر دیا گیا ، میرے والد مرحوم نے قرض لے کر اسے دوبارہ پاؤں پر کھڑا کیا.
جناب معزز جج صاحب آپ کی اجازت سے کچھ چیزیں آپ کے ریکارڈ میں لانا چاہتا ہوں ، میاں نواز شریف نے عدالت میں ساٹھ اور ستر کی دہائی کے کچھ اخباری تراشے اور فوٹو گراف عدالت میں پیش کیے، ایک ایسی تصویر بھی جج صاحب کو دکھائی جو مرسیڈیز کار کی تھی، میاں نواز شریف نے عدالت کو بتایا کہ یہ کار 77 میں میرے پاس تھی اور آج بھی گھر میں کھڑی ہے ، اگر آپ کہیں تو کل یہاں اسے لا سکتا ہوں ، یہ سب چیزیں جو آپ کے ریکارڈ میں لائی گئیں، میرے سیاست میں آنے سے قبل کی ہیں….
ہمارے خلاف انتقامی کارروائی ہو رہی ہے ، جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی ریفرنس دائر کیا گیا، مجھے امید ہے عدالت پورا انصاف کرے گی ،
ساڑھے گیارہ بجے میاں نواز شریف کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو ان کا رُخ باہر جانے کی بجائے احتساب عدالت میں ایک اور کمرے کی طرف تھا ، ان کے سیاسی رفقاء ان کے ساتھ تھے، میں خبر کے حصول کے سلسلے میں اُن کے ساتھ ساتھ تھا ، تھوڑا سا رک گیا تو مجھے راجہ ظفرالحق اور برطانیہ ن لیگ کے صدر ناصر بٹ نے پکڑا اور کہا آئیں کافی پیتے ہیں ، میں نے پیچھے دیکھا کہ کوئی اور رپورٹر نظر آئے تواس کو بھی ساتھ لے کر جاؤں ، مجھے دنیا نیوز کے رپورٹر طارق عزیز نظر آئے ، انہیں آواز دی اور ساتھ لے گیا.
کمرے کا ماحول خوشگوار تھا، میاں نواز شریف "کافی” پی رہے تھے ، ان کے دائیں طرف راجہ ظفرالحق اور بائیں طرف خواجہ آصف بیٹھے ہوئے تھے ، ڈاکٹر طارق فضل نے مجھے بھی کافی کا مگ دیا، میاں نواز شریف ٹھیٹھ پنجابی زبان میں گفتگو کر رہے تھے، کچھ سوال پچھلے چند دنوں سے میرے ذہن میں کلبلا رہے تھے ، مناسب وقت نہیں مل رہا تھا کہ سوال کروں.
میاں نواز شریف نے گفتگو میں تھوڑا توقف کیا تو میں نے سوال کر دیا کہ قبل از وقت انتخابات کے حوالے سے کیا کہیں گے اور کیا ن لیگ تیار ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے منہ سے یہ جملہ سن کر پاکستانی عوام نے سجدہ شکر ادا کیا کہ جلد ان سے جان چھوٹ رہی ہے، اپنی سیاسی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا کہ تین ماہ میں کوئی حکومت انتخابات کا کہہ رہی ہے ، ن لیگ تو انتخابات میں جانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے ، ہم نے تو ضمنی انتخابات میں اعلیٰ کارکردگی دکھائی ہے ، دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ فافن نے جو رپورٹ شائع کی ہے ، اس میں تو اس نے لکھا ہے کہ 45 ایسے حلقے ہیں جہاں جیت کا مارجن مسترد شدہ ووٹوں سے کم ہے ، اس سے تو انتخابات کی شفافیت کا سوال اُٹھتا ہے.
ملک کی اقتصادی حالت دگرگوں ہے ، پاکستان کھاد کا کارخانہ نہیں بلکہ 22 کروڑ عوام کا ملک ہے ، حکمران اسے کھاد کا کارخانہ سمجھ کر چلانا چاہتے ہیں ، اصل ایشوز سے توجہ ہٹانے کے لیے قوم کو "کٹوں اور مرغیوں ” کے پیچھے لگا دیا گیا،اس پر خواجہ آصف نے لقمہ دیا قوم کو سبز باغ دکھاتے دکھاتے کالا باغ دکھا دیا ، قوم کُرلا رہی ہے ، میاں نواز شریف نے سلسلہ کلام جوڑا اور بولے حکمران جو بولی بول رہے ہیں دنیا سن رہی ہے اور دنیا ان سے تنگ بھی ہے کہ کس طرح کے لوگوں کے ہاتھوں میں حکمرانی آ گئی ہے ،حکومت زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی.
کمرہ عدالت میں میاں نواز شریف کے ساتھ ملاقات کرنے والوں میں سردار ممتاز، ان کے ذاتی دوست حامد میر، ایم این ایز خواجہ آصف، میاں جاوید لطیف، طاہرہ اورنگزیب، عابد رضا، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، برطانیہ ن لیگ کے صدر ناصر بٹ، بزرگ سیاستدان راجہ ظفرالحق، پرویز رشید، سابق گورنر پنجاب رفیق رجوانہ، زبیر بٹ، ملک ابرار، سئینٹر نزہت صادق، طارق فاطمی، زہرہ ودود فاطمی اور دیگر موجود تھے.
میاں نواز شریف خواجہ آصف سے پی اے سی کی چیئرمین شپ اور دوسرے سیاسی امور پر گفت وشنید کرتے رہے ، انھوں نے اپنے دوست حامد میر کو پاس بلایا اور ان کے ذمہ ایک اہم ذمہ داری لگائی.