افغان جنگ ۔۔ امریکہ نے کیا پایا؟

گزشتہ دنوں امریکی صدر نے پاکستان سے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے مدد کی درخواست کی مگر تاریخ امریکی مذاکرات کے اس عمل کو‘ دوبارہ 1990ء کے دور میں دھکیل رہی ہے۔زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ دونوںممالک میں اعتماد کاکتنا فقدان رہا؟ مگر پاکستان‘ امریکہ کی مذاکرات میں مدد کرنے کو تیار ہے۔

دوسری جانب امریکی عوام اور دنیا کس قدر ان مذاکرات کو مایوس کن سمجھتی ہے؟ کچھ کہنا قبل از وقت ہے ۔ زلمے خلیل زادنمائندہ خصوصی برائے افغانستان امور‘ مذاکرات کریں گے،جو ایک تجربہ کار سفارتکار ہیں۔ اس سے قبل وہ افغانستان کے متعلق مختلف امور اور سیاست پر گہری نظربھی رکھے ہوئے ہیں ۔ امریکہ کی جانب سے افغانستان کے متعلق پالیسی بنانے میں ان کا کردار ڈھکا چھپانہیں۔امریکہ اس جنگ میں کسی صورت ہارماننے کو تیار نہیں۔

وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہے ایسا صرف ان کی ناقص عسکری پالیسی کی وجہ سے ہوا۔اب تو امریکی عوام اور میڈیا میں اس بات کو بھی ہوا دی جارہی ہے کہ امریکہ کو افغان جنگ کے حوالے سے کبھی اپنی فوج پر اندھا اعتبار نہیں کرنا چاہیے تھا ،جس کی وجہ سے وہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر پایا۔ بہت سے امریکی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انہیں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں دھکیلا گیا۔ افغان سیاست دانوں کی جانب سے کرپشن کی خبروں سے‘ ا فغان سپاہیوں کے حوصلے پست ہوئے۔ القاعدہ کی جانب سے جنگی حکمت عملی کے طور پراچانک منظر عام سے غائب ہونااور اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد اس جنگ میں تیزی ماند پڑ تی گئی۔

عام طور پرامریکیوں میں یہ تاثرپایا جاتا ہے کہ افغان جنگ نے ان کا بہت جانی نقصان کرایا اور یہ حقائق بھی ہیں ۔مختلف ادوار میں امریکیوں کو جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا خصوصاً 2015ء میں دس امریکی فوجی دستوں ‘ 2016ء میں نو‘2017ء میں گیارہ اور اس طرح 2018ء میں بارہ فوجی ہلاک ہوئے۔9/11کے حملوں کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور امریکی انتظامیہ یہ بات جانتی تھی کہ پاکستان ماضی کی طرح طالبان کی دہشت گردانا کارروائیوں اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ان کا ساتھ دے گا اور یقینا پاکستان نے ان کا ساتھ بھی دیا مگر نہ جانے کیوں؟ امریکہ ہمیشہـ اعتراف کرنے سے گریزاں رہا‘جبکہ امریکہ کی اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہی اٹھانا پڑا ۔

2009ء میں رچرڈ ہالبروک پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے خصوصی ایلچی مقرر ہوئے ۔انہوں نے پاکستان کی مددسے افغان طالبان سے مذاکرات کی بھرپور کوششیں کیں کہ کوئی درمیانی راستہ نکال کر مذاکرات کو کامیاب بنایا جائے؟ امریکی صدر اوبامہ نے انتظامیہ کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے اس جنگ کے جلد از جلد اختتام کے فیصلے کا عندیہ دیتے ہوئے نئی پالیسی بنانے پر غور شروع کیا ‘بلکہ واپسی کے لیے وقت کا تعین بھی کرلیا تھا۔

بعد میںٹرمپ انتظامیہ نے مذاکراتی پالیسی کو رد کرتے ہوئے زلمے خلیل زاد کو افغان مفاہمتی پالیسی کا نمائندہ بناکر بھیجا۔ان مذاکرات کی ناکامی کے پیچھے اصل حقائق جاننے کی کوشش کریں تو دونوں طرف سے وہ نظریات ہیں جو فریقین کو قابل قبول نہیں اور طالبان سے مذاکرات امریکہ کے لیے اتنے آسان بھی نہیں‘کیونکہ اس17سالہ جنگ میں امریکہ نے وہ خاطر خواہ نتائج بھی حاصل نہ کیے‘ جس کی وہ منصوبہ بندی کیے ہوئے تھا۔اس بات سے طالبان بھی بخوبی واقف ہیں۔طالبان اس جنگ کو مزید طول دینا چاہتے ہیں تاکہ امریکی تنگ آکر واپسی کا راستہ اختیار کریں اور افغانستان کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔وہ دوبارہ حملہ آور ہوکر ریاست کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیں،طالبان اس وقت آمنے سامنے لڑنے کے بجائے خفیہ کارروائیاں کر رہے ہیں ،ان کا نشانہ زیادہ تر سرکاری افغان افسران ہیں۔، قندھار میں اکتوبر کے مہینے میں افغان پولیس چیف پر حملہ اور ان کا قتل اس کی زبردست مثال ہے۔

ان حملوں کا مقصد افغان سکیورٹی کی ناقص پالیسیوں اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرنا ہوسکتا ہے،اور امریکی اس بات سے بھی واقف ہیں ،شاید اسی وجہ سے وہ مذاکرات کرنے پر مائل ہوئے ہیں۔ لیکن دوسری جانب یہ خدشہ بھی ان کے ذہنوں میں پنپ رہا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو طالبان دوبارہ افغانستان کی زمین دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال میں لا سکتے ہیں۔طالبان اور القاعدہ کا قیام صرف سوویت یونین کے خلاف ہی نہیں بلکہ اسلامی جہاد کے نظریہ پر عمل میں آیا تھا۔سوویت یونین کے خلاف جنگ کی کامیابی کے بعد اس نظریے کو چند مسلمانوں میں تقویت بھی ملی۔

امریکیوں میں یہ خدشہ بھی پایا جاتا ہے کہ اگر مذاکرات کے ذریعے واپسی کا راستہ اختیار کیا گیا تو طالبان کا یہ جہادی نظریہ مزید پروان چڑھے گا اور وہ اس کے تحت مزید بھرتیاں کرکے دنیا اور سپر پاور کے لیے مزید دشواریاں پیدا کرسکیں گے ۔ان کی سالہا سال کی محنت اور بھاری جانی و مالی نقصان اور منصوبہ جات سب مٹی میں مل جائیں گے۔امریکہ کے لیے مذاکرات کے ذریعے فوجی انخلا اورمستقبل میں دہشت گردی کے خدشات کو ختم کرنے کے لیے جامع پالیسی بنانا بہت بڑا چیلنج ہے۔

امریکہ کو اس جنگ میں تھوڑی بہت کامیابی تو ضرور حاصل ہو پائی مگر وہ ذاتی مفادات کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ‘ جس کے حصول کے لیے امریکہ نے یہ جنگ لڑی،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکی صدور اور انتظامیہ نے وقتا فوقتاً پالیساں تبدیل بھی کیں ‘مگر وہ سب بے سود ثابت ہوئیں۔مذاکرات کا یہ دور کب تلک چلتا ہے؟ اور کس قدر کارگر ثابت ہوتا ہے؟ یہ وقت ہی بتائے گا؟اگر کہا جائے یہ مذاکراتی عمل دو فریقوں کے درمیان معمولی تنازعہ یا رنجش کا ہے‘ جو جلد از جلد ختم ہو جائے گا تو سراسر غلط ہوگا‘کیونکہ جہاں نظریات اور لاکھوں جانوں کے ضیاع کا سوال ہو‘ وہاں معاملات کافی گمبھیر نوعیت کے ہوتے ہیں ۔ اس بات سے منہ بھی نہیں موڑا جا سکتا کہ ایسے مسائل اور جنگوں کا واحد حل صرف مذاکرات ہی ہیں‘ جو دونوں کے لیے مثبت اور بہترین عمل ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے