پانچ مرغیاں اور ایک مرغا !

کل علامہ شکم پرور لدھیانوی بہت عرصے کے بعد میرے غریب خانے پر تشریف لائے اور اس روز میرے گھر کو غریب خانہ انہوں نے خود قرار دیا کیونکہ وہ ناشتے میں جو کچھ نوش فرمانا چاہتے تھے وہ سارے آئٹم گھر پر دستیاب نہ تھے اس روز وہ کچھ خوش بھی نظر آ رہےتھے مگر ایک بات پر پریشان بھی تھے ،پہلے میں نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو بولے حضرت مکروہات دنیا میں اتنا مصروف رہا کہ اپنے بیٹے کے ختنے کی رسم ہی یاد نہیں رہی اور نہ کسی نے یاد دلائی ۔ اس پر میں نے کہا علامہ صاحب اس میں پریشانی کی کون سی بات ہے اب کروالیں، بولے وہ سولہ سال کا ہو گیا ہے میں نے ہنسی پر بمشکل قابو پایا۔ علامہ صاحب کہہ رہے تھے میں نے پھر بھی اللہ کا نام لیکر ارادہ کیا اور نائی کے پاس گیا کہ بچے کے ختنے کرنے ہیں وہ گھر آیا مگر بچے کو دیکھ کر معذرت کرکے چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد پوچھنے لگے آپ کے گھر میں کوئی کلہاڑا ہے ؟میں نے کہا اس کی کیا ضرورت پڑ گئی؟ بولے گھر کے باہر جھاڑیاں بہت بڑھ گئی ہیں وہ کاٹنا ہیں اس دفعہ میں نے معذرت کر دی ۔

ان کی خوشی کی وجہ پوچھی تو بتانے لگے کہ حکومت ہر خاندان کو پانچ مرغیاں اور ایک مرغ پولٹری فارم کے لئے دے رہی ہے۔ یہ کہتے ہوئے ان کے منہ میں پانی بھر آیا بولے ’’میں لائیو اسٹاک والوں سے درخواست کا فارم بھی لے آیا ہوں‘‘ اور پھر انہوں نے جیب سے فارم نکال کر مجھے تھما دیا ۔میں نے اس پر ایک نظر ڈالی تو پوچھا علامہ صاحب آپ نے یہ فارم پڑھا ہے بولے نہیں ،پڑھنے کی ضرورت ہی کیا ہے میں یہ فِل کروں گا اور لائیو اسٹاک کے دفتر سے پانچ مرغیاں اور ایک مرغا لے آئوں گا۔ پھر مجھے مخاطب کرکے کہنے لگے ’’پانچ مرغیوں کے لئے ایک مرغا کافی ہو گا، میں نے پوچھا کیا مطلب؟

بولے ’’لوگ مرغی کی نسبت مرغا زیادہ شوق سے کھاتے ہیں ‘‘ یہ سن کر میں نے ہنستے ہوئے کہا علامہ صاحب حکومت آپ کو یہ پرندے کھانے کے لئے نہیں پالنے کے لئے دے رہی ہے تاکہ مرغیاں انڈے دیں ان کی افزائش نسل ہو اور یوں آپ کے پاس سینکڑوں مرغیاں اور ہزاروں انڈے جمع ہو جائیں گے جس سے ملکی معیشت کے استحکام میں مدد ملے گی۔یہ سن کر علامہ صاحب مسکرائے اور فرمایا یہ بعد کی باتیں ہیں مرغا اور مرغیاں ایک بار ہاتھ تو لگیں ۔میں نے سوچا علامہ صاحب کی خوش فہمی دور کر دوں چنانچہ میں نے درخواست فارم پڑھ کر سنانا شروع کر دیا ۔

’’میں مسمی …..شناختی کارڈ نمبر ……یونین کونسل نمبر ….تحصیل….ضلع….کا رہائشی ہوں۔ میں دیہی مرغبانی میں دلچسپی رکھتا/رکھتی ہوں اس سلسلے میں محکمہ لائیو اسٹاک کی طرف سے فراہم کردہ پولٹری یونٹ عمر 80تا 85دن (چھ پرندے)گھر پر حاصل کرنے اور رکھنے کا /خواہشمند ہوں۔ میرے علم میں ہے کہ ان چھ پرندوں کے پولٹری یونٹ کی قیمت 1200روپے ہے۔ میری بکنگ کے مطابق مجھے پرندے جلد از جلد فراہم کئے جائیں۔دستخط خریدار …..تصدیق کنندہ نمبردار ، امام مسجد….‘‘فارم کی عبارت سن کر علامہ صاحب کچھ پریشان ہوئے ’’ یہ کیا بات ہوئی میں رستے میں آج مرغی کا ریٹ پتہ کرکے آیا ہوں دو سو تیس روپے کلو ہے اور ایک کلو میں ایک سے زیادہ مرغیاں ہوتی ہیں ۔

غضب خدا کا اگر بارہ سو روپے میں پانچ مرغیاں اور ایک مرغا ملنا ہے تو لائیو اسٹاک والوں ہی سے لینا ہے‘‘ میں نے عرض کی علامہ صاحب میں مرغی دان نہیں ہوں یقیناً اس میں عوام کے لئے ریلیف ہو گا جو لے مین ہونے کی وجہ سے میں نہیں سمجھ سکا ورنہ حکومت کو بلکہ خود وزیر اعظم کو اس کا اعلان کرنے کی کیا ضرورت تھی؟میں نے یہ بھی کہا کہ باقی تو سب ٹھیک ہی ہو گا مگر یہ جو علاقے کے نمبردار اور امام مسجد کے دستخط کرانا ہیں یہ تھوڑا سا خجل خواری والا کام ہے ۔

علامہ صاحب نے فرمایا ’’امام مسجد تو میں خود ہوں چنانچہ دستخط میں خود ہی کر لوں گا‘‘ میں نے پوچھا آپ کون سی مسجد کے امام ہیں بولے جس مسجد کی تعمیر کےلئے میں چندہ جمع کر رہا ہوں ، تعمیر ہونے پر اس کا امام میرے علاوہ اور کون ہو گا۔علامہ صاحب مجھے اس اسکیم سے اب زیادہ خوش نظر نہیں آ رہے تھے چنانچہ اپنی نشست سے اٹھے اور مصافحہ کرکے جانے لگے تو دروازے پر دستک ہوئی ملازم نے دروازہ کھولا تو ایک ٹرے میں انواع واقسام کی نعمتیں تھیں میرے ہمسائے مرزا صاحب نے نیاز دلوائی تھی اور ہمارا حصہ بھجوایا تھا ۔

علامہ صاحب دوبارہ اپنی نشست پر تشریف فرما ہوگئے اور ملازم جو یہ ٹرے اندر دینے جا رہا تھا اسے آواز دے کر بلایا اور سامنے دھری میز پر پلائو ،زردہ اور قورمہ وغیرہ کی ڈشیں رکھ دیں۔ میں نے عر ض کی علامہ صاحب مرزا صاحب کا ملازم باہر برتن واپس لینے کے لئے کھڑا ہے یہ کھانا ہمیں اپنے برتنوں میں تو ڈالنے دیں۔ انہوں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے میرے ملازم سے کہا باہر جو بندہ برتنوں کے انتظار میں کھڑا ہے اسے کہو وہ گھنٹے بعد آکر برتن لے جائے۔

اور پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی علامہ شکم پرور لدھیانوی کھانے کے ساتھ مکمل انصاف کرنے کے بعد صوفے پر ہی ٹیک لگا کر سو گئے۔ مگر تھوڑی ہی دیر بعد اپنے ہی خراٹوں کے شور سے اٹھ بیٹھے اور مجھ سے مصافحہ کرکے رخصت ہونے لگے اور مجھے بتایا کہ وہ اب ایک اور نائی کے پاس جا رہے ہیں مگر پھر دروازے سے مڑ کر واپس آئے اور فرمایا ’’تو کیا آپ کے پاس واقعی کلہاڑا نہیں ہے ؟‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے