دباؤ کا کیڑا

چھ دسمبر کو گجرانوالہ شہر کی سڑکوں پر لگے بینراورپینا فلیکس اشتہارات دیکھ کر میں ایک لمحے کے لیے سکتے میں آگیا۔ بینرز پر لکھی تحریر پڑھ کر مجھے یقین نہ آیا تو گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے اپنےبھائی کو ان کی تصاویر لینے کا کہا اور ہم آگے بڑھ گئے۔

اسلام آباد پہنچنے پر موبائل فون سے لی گئی تصاویر کا بغور مشاہدہ کیا توتشویش میں مزید اضافہ ہوا۔ دراصل بڑے بڑے بینرز اور پینافلیکس اشتہارات پر عالمی سطح پر ایک انتہائی متنازع شخص کا نام جلی حروف میں لکھا گیا تھا اور جمعے کے روز ان کے خطاب کا بھی خصوصی اعلان کیا گیا تھا۔ یہ صاحب پاکستانی ہیں مگر عالمی سطح پر ان کے خلاف دہشت گردی کے سنگین الزامات عائد کیے جاتے ہیں یہ الگ بحث ہے کہ وہ الزامات کتنے درست ہیں اور کتنے غلط مگر امریکہ نے ان کے سر پرانعام بھی مقرر کررکھاہے۔

امریکہ اور دیگر ممالک جائیں بھاڑ میں ہمیں ان سے کوئی غرض نہیں۔ ہمیں غرض ہے تو ایشیا پیسفک گروپ اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے کہ جس نے ہمیں ایسی متنازع شخصیات اور تنظیموں کے بارے میں واضح ہدایات دے رکھی ہیں۔ ایشیا پیسفک گروپ اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس عالمی مالیاتی اداروں کے دو ایسے فورم ہیں جو مختلف ممالک کو دہشتگردی و انتہا پسندی بالخصوص ان کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کی ہدایات دیتے ہیں۔ پاکستان کو بھی ایسی ہدایات مل چکی ہیں۔ یہ فورم اتنے طاقتورہیں کہ یہ ہدایات پر عملدرآمد نہ کرنے والے ملک یا ممالک پر معاشی پابندیاں عائد کرنے کا اختیاربھی رکھتے ہیں۔

جس ملک پر معاشی پابندیاں عائد کردی جائیں تو اس ملک میں معاشی بحران آجاتا ہے۔ اگر ملک معاشی طور پر خود کفیل ہو تو سب خیر ورنہ تباہی مقدربن جاتی ہے۔اس سارے پس منظر میںہمارے پاس صرف آئندہ سال اکتوبر تک کا وقت ہے۔ ہم معاشی طور پر تو مستحکم اور خود کفیل نہیں لہٰذا ہمارے پاس ان فورمز کی طرف سے دی گئی ہدایات پر عملدرآمد کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ ہمیں اپنی کارکردگی دکھا تے ہوئے ایسے افراد اور اداروں کا بندوبست کرنا ہے جو عالمی سطح پرپاکستان کی بدنامی کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہم نے منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی معاونت جیسے امور کو بھی قابو میں لانا ہے تاکہ عالمی معاشی پنڈت مطمئن ہوسکیں۔ ایشیا پیسفک گروپ کے ارکان نے اکتوبر میں پاکستان کا دورہ کیا ہے مگر میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ مطمئن نہیں لوٹے۔ پاکستان کو ہرتین ماہ بعد اپنی کارکردگی رپورٹ ایشیا پسیفک گروپ اور اس کے ذریعے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو جمع کرانا ہوتی ہیں۔

نیا سال سب سے اہم ہوگا کیونکہ ماضی میں بری کارکردگی کے باعث ہم ’’گرے لسٹ‘‘ میں موجود ہیں مزید بری کارکردگی پر ہمیں’’بلیک لسٹ‘‘ میں شامل ہونے کا خطرہ لاحق ہے جس سے ہم پر خود بخود معاشی پابندیاں عائد ہوجائیں گی۔ ہم نے ان فورمزپر 5جنوری 2019تک اپنی پہلی رپورٹ جمع کرانا ہے پھر تین ماہ بعد اپریل میں دوسری جولائی میں تیسری اور پھر ستمبر اکتوبر میں فائنل رپورٹ پر ہماری قسمت کا فیصلہ ہوگا۔ ا س دورانیے میں یہ گروپ خاموشی سے اپنی دی گئی ہدایات پر عملدرآمد کا جائزہ لیتے رہیں گے۔ابتدائی طورپر ہمیں چھ ماہ میں اپنی کارکردگی دکھانا ہے وگرنہ آئندہ سال دسمبر تک ہم بلیک لسٹ میں بھیج دئیے جائیں گے اورآئندہ سال 2019 میں انہی دنوں اپنے معاشی تباہی کا رونا دھونا کررہے ہوںگے۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں قبل ازوقت انتخابات کا بھی اشارہ دیا ہے مگر ہماری معاشی صورتحال اس قدر دگرگوں ہوگی کہ جیب میں کھانے کو پیسے نہیں ہونگے تو نئے انتخابات کیسے ہوں گے۔اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ تاحال متنازع شخصیات اور اداروں کی روک تھام کے لیے کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آسکی۔ تاہم حکومت کی طرف سے خادم حسین رضوی اور پیرافضل قادری کے خلاف پنجاب پولیس نے دہشتگردی اور بغاوت کے مقدمات ضرور قائم کئے ہیں۔ لیکن افسوس کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ہوں یا وزیرمملکت برائےداخلہ شہریارآفریدی کسی نے مرکزیا صوبے میں اس اقدام کو سیاسی ملکیت نہیں دی۔ خطرہ یہ ہے کہ ایسے عناصر دوبارہ زیادہ طاقت کے ساتھ میدان میں نہ آجائیں ایسی صورت میں ہمارے معاشرے سے برداشت بالکل ختم ہوجائے گی۔

ایشیا پسیفک گروپ اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے دی گئی ہدایات پرنیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی ، فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی ، اسٹیٹ بینک، ایف بی آر وغیرہ نے اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہیں۔ اس سارے معاملے میں سب سے اہم ذمہ داری پولیس اورریاست کے دیگر اداروں کی ہے جنہوں نے ایسے عناصر کو عملی طور پر کنٹرول میں لانا ہے۔ آج نہیں تو کل یہ اقدام کرنا ہوگا۔ سب کوآئین اور قانون کے دائرہ کار میں آنا ہوگا۔ایسی ہی صورتحال کے بارے میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت دوسال قبل تین اور چار اکتوبر کو دو روزہ اجلاس میں سول ملٹری قیادت بظاہر ایک ہی صفحے پر آگئے تھے۔ مگرچاردن بعد جب چھ اکتوبر کو اس اجلاس کی انگریزی اخبار میں خبر شائع ہوئی تو یہ معاملہ اس وقت کی منتخب حکومت کے خلاف ’’ڈان لیکس‘‘ کا کیس بن گیا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ سول اور ملٹری قیادت ایک دوسرے سے دور کھڑی تھیں۔

آج مجھ جیسے ناقدین بھی مانتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کےد ور میں فی الحال کوئی سول ملٹری تنازع سامنے نہیں آیا کیونکہ حکومت ایسا کوئی کام نہیں کررہی جس سے طاقتور حلقے ناراض ہوں۔ شاید یہ باہمی انڈراسٹینڈنگ ہی تھی کہ ملک میں ایسے عناصر کی طرف سے کسی قسم کا کوئی دبائو برداشت نہیں کیا گیا اور حکمت عملی کے ذریعے پنجاب میں مذہب کا کارڈ کھیلنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کرکے ان پر مقدمات قائم کئے گئے۔اس باہمی انڈراسٹینڈنگ کو ایشیا پیسفک گروپ اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ہدایات پر عملدرآمد کے لیے استعمال کرنے کا سب سے مناسب وقت یہی ہے۔ امید تو یہی ہے کہ ایسے عناصر کو انگریزی محاورے کے مطابق گاجراورچھڑی کے اصول کےپیش نظر قابو کرنے کیلئے مناسب اقدامات کیے جائینگے۔

ذوالفقارعلی بھٹو نے جیل کی کال کوٹھڑی سے لکھی اپنی معروف کتاب ، If I am assassinated میں لکھا تھا کہ دبائو ایک کیڑا ہوتا ہے اگر اسے دیکھ کررک جائیں تو یہ اژدھا بن جاتا ہے لیکن اگر آپ اسے بروقت کچل ڈالیں توآپ کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس وقت ریاست کے تمام ستونوں کو مل کر دبائو کے کیڑے کو کچلنا ہوگا وگرنہ گجرانوالہ اور اس جیسے دیگر شہروں میں لگنے والے اکثر بینرز و اشتہارات کچھ اور کریں یا نہ کریں عالمی سطح پر ہمیں پابندیوں کا شکارکرکے بلی ضروربنا دیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے