سجاد شیخ: خواب تھا یاخیال تھا کیاتھا

کچھ لوگ شہاب ثاقب کی طرح ہوتے ہیں۔ مختصر مدت کیلئے آتے اورچلے جاتے ہیں‘ لیکن ان کے جانے کے بعد بھی ان کی روشنی اُفق منور رکھتی ہے۔ پروفیسرسجاد شیخ صاحب بھی شہاب ثاقب کی طرح گورڈن کالج راولپنڈی کے اُفق پرچمکے اورچلے گئے‘ لیکن ان کی روشنی کتنے ہی ذہنوں اوردلوں کواجال گئی۔ سجاد شیخ کاگورڈن کالج کے دروبام پرنقش اتناگہراتھا کہ گورڈن کالج کاکوئی بھی تذکرہ شیخ صاحب کے بغیرادھورا لگتا ہے۔ سجادشیخ نے جب بطور استاد گورڈن کالج میں قدم رکھا تو کالج میں انگریزی کے نامی گرامی استادوں کا طوطی بول رہاتھا ‘جن میں فرانسس زیویر‘ وکٹرمل اورڈسکوی صاحب جیسے اساتذہ شامل تھے۔ کوئی اورنوجوان ہوتاتو اس کی آواز گنبد کی آوازوں میں گم ہوجاتی اور وہ حوصلہ ہار جاتا‘ لیکن سجاد شیخ یہاں ایک جذبے سے آئے تھے۔

اپنا آپ منوانے کاجذبہ۔ اس کے لیے انہیں سخت محنت کرنا پڑی۔ سجاد شیخ کے دوست اورگورڈن کالج میں ہمارے پروفیسر آفتاب اقبال شمیم صاحب بتاتے ہیں کہ ایک روز جب شیخ صاحب سے کسی نے پوچھا کہ ایم اے کی کلاسز میں جاتے ہوئے آپ کو کوئی خوف محسوس نہیںہوتا‘ جہاں آپ کے ہم عمریاآپ کی عمرسے بڑے طالب علم بیٹھے ہوتے ہیں؟ شیخ صاحب نے ایک لمحے کوسوچاپھر بولے کہ میں ہر روز رات دوبجے تک اگلے روز کے لیکچر کی تیاری کرتا ہوں۔ ٹیکسٹ کابغور مطالعہ کرتا ہوں‘ ممکنہ سوالوں کے جوابات کی تیاری کرتا ہوں اورپھراگلے روز کلاس روم کی طرف جاتے ہوئے اپنے دوپسندیدہ اساتذہ ایرک سپرین اور حمیداحمد خان کاتصور ذہن میں لاتاہوں اوربلا خوف کلاس روم میں داخل ہوتاہوں۔

سچ تو یہ ہے کہ میں نے سجادشیخ جیسامحنتی استاد اپنی زندگی میںکم ہی دیکھا۔ گورڈن کالج میں ہمارے ایم اے کے پورے سیشن میں انہوںنے کبھی چھٹی نہیں کی۔ گرمی ہویاسردی ‘آندھی ہویاطوفان شیخ صاحب مقررہ وقت پرکلاس میں ہوتے۔ اس زمانے میں وہ سیٹیلائٹ ٹائون میں رہتے تھے‘ کبھی ویگن پرکمیٹی چوک تک آتے اورپھروہاں سے پیدل گورڈن کالج۔وقت کم ہونے کی صورت میں وہ ٹیکسی پرآتے۔ سنا ہے کسی زمانے میں شیخ صاحب نے ایک موٹرسائیکل بھی رکھی ہوئی تھی ‘جس پر وہ کالج آتے تھے‘ لیکن موٹرسائیکل کی رفاقت کچھ عرصہ ہی رہی۔

شیخ صاحب گائڈ بکس کے استعمال کے سخت خلاف تھے ‘وہ ٹیکسٹ کے تجزیے پر زوردیتے۔ وہ کسی بھی ادبی متن کے فنی محاسن اورعیوب سامنے لے آتے۔ لیکچرکے دوران وہ وقت کی قید وبند سے آزاد ہوجاتے‘ کئی بار ایساہوا کہ شیخ صاحب چارچار گھنٹے تک اپنا لیکچرجاری رکھتے۔ایک روزہم سب نے کہا:سر آپ کبھی چھٹی کرلیاکریں‘ تو وہ اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے اور کہنے لگے: چھٹی کاتصور میرے لیے اجنبی ہے۔ Only death can part us (موت ہی ہمیں ایک دوسرے سے جدا کرسکتی ہے)۔

گورڈن کالج کے مین گیٹ کے بالکل سامنے جوبلی ہال سے متصل بالائی منزل پر ہمارا کلاس روم تھا۔ کمرے کے روشندان سے سامنے کی سڑک نظرآتی تھی۔ اسی سڑک کے کنارے ایک ڈھابہ تھا جومجیدہوٹل کے نام سے مشہورتھا۔ ہماری ایم اے انگلش کی کلاس میں صرف پندرہ طالب علم تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد گیارہ رہ گئی تھی۔ ان دنوں صدرمیں سیروز سنیما پرایک انگلش فلم چل رہی تھی۔ ہم سب نے پروگرام بنایا کہ آج فلم دیکھنے جائیںگے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اس روزشیخ صاحب کی کلاس تھی‘ جوچھٹی کے معاملے میں بہت کنجوس واقع ہوئے تھے۔ طے یہ ہوا کہ ہم سب لوگ مجیدہوٹل میں بیٹھیںگے اوراپنی کلاس کے پرویزراجہ کوکلاس میں بھیجیں گے‘ جوشیخ صاحب کوبتائے گا کہ آج کوئی بھی نہیں آیا اوریہ بتاکروہ مجیدہوٹل آجائے گا‘ جہاں سے ہم اکٹھے فلم دیکھنے جائیںگے۔پرویز راجہ جوبعدمیں فوج میں کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوا ‘ کلاس کا سب سے شریف اور معتبرطالب علم تصور کیاجاتا تھا۔

پرویز راجہ کو بھیج کرہم نے چائے کاآرڈر دیااور انتظار کرنے لگے۔ آدھ گھنٹہ گزرگیا‘ لیکن پرویزراجہ واپس نہ آیا‘ فلم کاوقت گزراجارہاتھا‘ لیکن ہم پرویز راجہ کو چھوڑ کر نہیںجاسکتے تھے۔ آخر دوگھنٹے بعد وہ انتہائی غصے کے عالم میں ہوٹل کے دروازے پر نمودار ہوااور بولا: تم لوگوں نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا ۔ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ جب اس نے کلاس میںجاکر شیخ صاحب کوبتایا کہ سرآج کوئی نہیں آیا تو وہ بولے: کوئی بات نہیں تم توآئے ہونا۔ اس کے بعد انہوںنے پرویز راجہ کوسامنے بیٹھا کر دوگھنٹے لیکچردیا۔ شیخ صاحب کے گھر کا دروازہ بھی اپنے طلبا کیلئے کھلا رہتاتھا ۔اس سلسلے میں وقت کی کوئی قید نہ تھی۔ خاص بات یہ تھی کہ انہوںنے زندگی بھر کبھی ٹیوشن نہیں پڑھائی۔

شیخ صاحب لکیرکے فقیرنہ تھے‘ ٹیکسٹ کی طرف ان کی کریٹیکل اپروچ (Critical Approach)تھی۔ ادب کے حوالے سے وہ رومینٹک کے بجائے کلاسیک مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ جذبات کی بجائے خیالات اورمعنی پر ان کی توجہ زیادہ ہوتی۔ وہ گھڑے گھڑائے تصورات کوتوڑنے میں ایک خاص لطف محسوس کرتے تھے۔ وہ ہم سے بھی یہی توقع رکھتے کہ کسی بھی ٹیکسٹ کاتجزیہ ہم خود کریں۔سجادشیخ صاحب کی کوئی اولاد نہیںتھی۔ ان کی ساری توجہ کامرکز ان کے طالب علم تھے۔ کالج کے بعد کاوقت وہ کتابو ں کی دکانوں پرگزارتے۔ ان کی کوشش ہوتی کہ ہرنئی کتاب جوان کے مضامین سے متعلق ہوتی‘ ان تک سب سے پہلے پہنچے۔ ہمارے زمانے میں گورڈن کالج کے چیف لائبریرین ولیم صاحب تھے۔ بہت بھلے مانس انسان تھے۔

وہ بتاتے تھے کہ ان سے زیادہ شیخ صاحب کولائبریری کی کتابوں کے بارے میں علم ہوتا۔ شیخ صاحب کو کتابوں سے عشق تھا۔ وہ انگریزی‘ اردو اورپنجابی ادب کے رسیاتھے۔ ایک بے مثال استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پائے کے نقاد اورمترجم بھی تھے۔ انہوںنے اردو میں کئی ادب پاروں پرتنقیدی مضامین لکھے۔بہت سے ادیبوں اورشاعروں کی تخلیقات کا انگریزی ترجمہ کیا‘ جن میں فیض احمد فیضؔ‘ احمد ندیمؔ قاسمی‘ آفتابؔ اقبال شمیم اور مجیدؔ امجدشامل ہیں۔

اسی طرح لیئق بابری کی پنجابی کی کتابــ ”گھگھوگھوڑے ‘‘کاترجمہ بھی کیا۔ کالج کے آخری دن شیخ صاحب نے ہمیں تین چیزوں کی تلقین کی۔ وہ بولے: سب سے پہلی چیز پابندی وقت ہے‘ آپ زندگی کے کسی بھی شعبے میں جائیں وقت کی پابندی کو اپنے اوپر لازم کر لیں۔ دوسری اہم چیز اپنے کام کی لگن اور پیشگی پلاننگ ہے ۔کبھی اپنے کام کو Taken for granted نہ لیں۔ شیخ صاحب کے مطابق: تیسری اہم چیز دوسروں کی عزت نفس کا احترام کرنا ہے۔ شیخ صاحب کا کہنا تھا کہ ہر انسان چاہے وہ چھوٹا ہویا بڑا ‘ امیر ہو یا غریب اس کی عزت نفس ہوتی ہے‘ آپ کسی بھی منصب پر پہنچ جائیں ‘پوری کوشش کریں کہ آپ کی کسی حرکت‘ کسی بات اور عمل سے دوسروںکی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ میں نے کوشش کی کہ ان تین نصیحتوں پر عمل پیرا رہوں۔

سجادشیخ کی زندگی کاآخری دور مختلف اورتکلیف دہ تھا۔ انہیںگورڈن کالج سے پاکپتن جاناپڑا‘ جہاںبطور پرنسپل انہیں اپنی اصول پسند طبیعت کے باعث شدید مزاحمت کاسامنا کرناپڑا۔ مضبوط اعصاب کے مالک سجاد شیخ کے اعصاب چٹخنے لگے۔ اس کے بعد وہ چکوال کالج میں بھیجے گئے لیکن سجاد شیخ جیسا بے مثل استاد اب فرزانگی سے دیوانگی کی سرحد سے جالگاتھا ۔اس دورمیںشیخ صاحب پرخطاطی کاجنون سوارتھا اس کے پس منظر میں شاید ان کی معروف مصور صادقین سے عقیدت کاہاتھ تھا۔ شیخ صاحب کے پاس صادقین کی خطاطی میں لکھاہوا ان کا نام ایک قیمتی متاع تھی‘ جسے انہوںنے بڑی حفاظت سے سنبھال کررکھاہواتھا۔ پھرمجھے ملازمت کے سلسلے میں راولپنڈی سے دورجانا پڑا‘ اس دوران کبھی کبھی ان کی خیرخبرمل جاتی تھی۔

پھرایک روز ان کے جانے کی خبر ملی۔میں لاہور میں اپنے آفس میںبیٹھا تھا ‘کھڑکی سے باہر تیز بارش نے پوری فضا کو دھندلادیاتھا۔شیخ صاحب کے جانے کی خبر سن کرمجھے یوں لگا جیسے دھندمیں لپٹا ہوا گورڈن کالج کا وہ عہد بھی ایک عالم ِخواب تھا‘ جس میں میں سجادشیخ سے ملاتھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سجاد شیخ کاتصور ایک دودھیابادل کی طرح میرے شعور کی حدوں سے باہر تحلیل ہوتاگیا ۔مجھے آفتاب اقبال شمیم کی نظم کی آخری سطریں یادآگئیں۔
بہارِ ملاقات تو واہمہ تھی
گلِ دید جس میں کھلا ہی نہیں
اس سے کیسے بچھڑنا جسے میں ملا ہی نہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے