نوازشریف بولے:””ہنسنا تو دُور ہم ٹھیک طرح سے رو بھی نہیں سکتے”

گزشتہ روز سے ملک کے طول و عرض میں رات گئے تک خوب اَبر برسا، مری میں برف باری کی وجہ سے اسلام آباد یخ بستہ ہوائوں کی لپیٹ میں ہے، سرد موسم میں ملک کا سیاسی درجہ حرارت گرم ہے، وزیراعظم ہاوس سے نکل کر لاہور کی جانب موٹروے پر رخت سفر باندھا جائے تو کشمیر ہائی وے سے گزرنا پڑتا ہے، پشاور موڑ سے تھوڑا آگے گزر کے دوسرا اشارہ جی الیون کی جانب جاتا ہے ، جی الیون ون میں سیاہی مائل ایک عمارت ایستادہ ہے جسے احتساب عدالت کا نام دیا جاتا ہے، اس عدالت میں اس وقت ملک کے تین سابق وزراء اعظم نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کیس بھگتنے کے لیے آتے ہیں ، شنید ہے کہ اس ٹیم میں ایک اور سابق وزیراعظم شائد خاقان کی صورت میں اضافہ ہونے والا ہے ، ان کے گرد بھی نیب نے شکنجہ کسا ہوا ہے ، مشرف دور کے وزیراعظم شوکت عزیز کا کیس بھی یہاں چل رہا ہے اور عدالت نے انہیں اشتہاری قرار دے رکھا ہے ، اس سے آگے بات بڑھی نہیں.

نواز شریف کیس کی سماعت روزانہ کی بنیادوں پر لگ بھگ پچھلے ڈیڑھ سال سے ہو رہی ہے ، ہفتے میں پانچ دن عدالت لگتی ہے اور میاں نواز شریف پانچ دن عدالت حاضر ہوتے ہیں.فاضل جج جب کرسی انصاف پر آ کر بیٹھتے ہیں تو عدالتی اہل کار آواز لگاتا ہے "سرکار بنام نواز شریف وغیرہ” پھر کیس کی سماعت شروع ہو جاتی ہے.ایون فلیڈ کا سیاپا ختم ہوا تو العزیزیہ اور فلیگ شپ شروع ہوا ، العزیزیہ ریفرنس پر حتمی دلائل جاری ہیں پھر فلیگ شپ کی باری آئے گی.

گزرے روز سے میری طبعیت قدرے منتشر تھی ، آج معمول سے تھوڑا دیر سے عدالت پہنچا، میاں نواز شریف اپنے سیاسی مصاحبین کے ہم راہ عدالت میں موجود تھے ، ان کے دائیں طرف ایم این اے رانا تنویر اور بائیں طرف عرفان صدیقی براجمان تھے.آج کل اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہے جس کی وجہ سے احتساب عدالت میں معمول سے زیادہ رش دیکھنے میں آیا، مشاہد حسین سید اور سابق اسپیکر ایاز صادق عدالت کے صحن میں کھڑے گفت و شنید کر رہے تھے.

کمرہ عدالت میں میاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اپنی قانونی ٹیم کے ہم راہ دلائل دے رہے تھے، اس دوران انھوں نے کہا کہ جناب جج صاحب آپ دیکھیں گے کہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء یہ تسلیم کریں گے کہ ہمیں پتہ نہیں کہ یہ ریفرنس کیوں بنایا گیا تھا؟
نیب پراسیکیوٹر واثق ملک قانونی نکتے سے ہٹ کر بات کرنے لگے تو جج نے واقعہ سنایا کہ ایک استاد بچوں کو سیر کے لیے فیصل آباد لے گیا اور انہیں فیصل آباد کے مشہور آٹھ بازار میں چھوڑ کر تنبیہہ کی کہ آپ جہاں کہیں بھی گھومیں مگر گھنٹہ گھر پر آپ کی نظریں ہونی چاہیے ، اس طرح آپ بھی کہیں بات کریں مگر فوکس قانونی نکتے پر ہونا چاہیے.

میاں نواز شریف کمرہ عدالت میں اپنے سیاسی رفقاء سے صلاح و مشورہ بھی کرتے رہے ، وہ زیر لب کچھ پڑھتے بھی رہے ، میاں نواز شریف ابھی تک اپنی اہلیہ کی جدائی کا غم بھول نہیں سکے، چار دہائیوں سے زائد کی رفاقت رہی، محترمہ کلثوم نواز سے میاں نواز شریف سیاسی معاملات میں بھی مشاورت کرتے تھے، وہ انہیں مشکلات سے نکلنے کے طریقے بتاتی تھیں ، یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف محترمہ کی جدائی کو بھول نہیں پا رہے.

میاں نوازشریف اپنے سٹاف آفیسر شکیل اعوان کو بار بار ہدایات دیتے اور وہ کمرہ عدالت سے باہر جا کر سیل پر گفتگو کرتے، کمرہ عدالت کے اندر میاں نواز شریف کو کسی طرح پتہ چل گیا کہ خواجہ بردارن(سعد رفیق اور سلمان رفیق) کی گرفتاری کا امکان ہے ، سینیٹر پرویز رشید انھیں لمحہ بہ لمحہ آگاہی دے رہے تھے.

سابق وزیراعظم سے ملاقات کرنے والوں میں سردار ممتاز، سینیٹر چوہدری تنویر، ظفر اقبال جھگڑا، ایم این ایز میاں جاوید لطیف، طاہرہ اورنگزیب، مریم اورنگزیب، تہمینہ دولتانہ، زیب جعفر، سعدیہ عباسی، ابصار عالم، انجنیئر خرم دستگیر، عباس آفریدی، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، سابق ایم این اے شکیل اعوان ،انصر عزیز اور آصف کرمانی شامل تھے

بارہ بجے میاں نواز شریف کو کمرہ عدالت سے جانے کی اجازت ملی تو ان سے ایک رپورٹر نے پوچھا میاں صاحب آج کل آپ نے ہنسنا بند کر دیا ے تو میاں نواز شریف نے ٹھہر کر جواب دیا کہ ”ہنسنا تو دور کی بات ہم ٹھیک طرح سے رو بھی نہیں سکتے”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے