بی بی سی اور کیا کرتی؟

لوگ حیران ہیں بی بی سی نے اسد عمر کے انٹرویو کا وہ حصہ کیوں حذف کر دیا جس میں کلبھوشن یادیو کا ذکر تھا اور میں لوگوں کی سادگی پر حیران ہوں ۔ سوال یہ ہے بی بی سی اس حصے کو حذف نہ کرتی تو اور کیا کرتی ؟ کیا وہ کسی ایسے شخص پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگانے کی اجازت دے دیتی جو مسلمان بھی نہیں ہے؟

یہ ہماری سادگی ، جہالت اور مرعوبیت ہو سکتی ہے کہ ہم مغربی میڈیا کو معروضیت اور پیشہ ورانہ دیانت کا استعارہ تصور کر کے سمجھ لیں کہ وہ بہت آزاد ہے اور کلمہ حق کہتا ہے۔ حقیقت یہ کہ جہاں مسلمانوں سے معاملہ ہو وہاں چند مستثنیات کے ساتھ مغربی میڈیا معروضیت ، پیشہ ورانہ دیانت اور سچائی جیسے تکلفات میں کبھی نہیں پڑا ۔ یہ بات گمان نہیں ایک اعلانیہ حقیقت ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کی مالک کیتھرین گراہم نے 1988 میں سی آئی اے میں نئے بھرتی ہونے والے جوانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا : ’’ہم بڑی گندی اور خطرناک دنیا میں رہتے ہیں ۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ عام آدمی کو نہ تو ان کو جاننے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کو یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ انہیں جان سکے‘‘۔ اب اس گندی اور خطرناک دنیا میں عام آدمی کو یہ کیسے بتایا جائے کہ مسلمانوں کے علاوہ بھی کوئی دہشت گرد ہو سکتا ہے ؟ ہاں کلبھوشن کی جگہ کوئی حاجی عبد الرحمن ہوتا اور وہ پاکستان کی بجائے بھارت میں قید ہوتا پھر آپ دیکھتے بی بی سی کیسے کشتوں کے پشتے لگاتی ہے۔

یہ بات اب وکی لیکس کے ذریعے دنیا کو معلوم ہو چکی کہ کیسے امریکہ نے ایک کمپنی کو القاعدہ کے جنگجوؤں کی جعلی ویڈیوز تیار کرنے کے لیے 540 ملین ڈالر کا ٹھیکہ دیا ۔ مقصد واضح تھا ۔دہشت گردی اور اسلام کو لازم و ملزوم بنا دیا جائے تا کہ مسلم دنیا پر حملہ آور ہونے اور وسائل پر قبضے کا بہانہ ہاتھ آ سکے ۔ خود افغان حکومت کہہ چکی کہ افغانستان میں امریکہ داعش کو اسلحہ اور خوراک فراہم کر رہا ہے ۔ گویا یہ ایک ہمہ جہت واردات ہے۔ کون جانے کس کے پیچھے کون ہے؟

یورپی یونین کے کمیشن فارریسزم اینڈ زینوفوبیا کی اپنی رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا جا چکا ہے کہ مغربی میڈیا اسلاموفوبیا کا شکار ہو چکا ۔ یہی بات ایف ایلن نے اپنی کتاب ’ اسلامو فوبیا ان یوکے‘ میں لکھی ہے ۔ اس کتاب کو آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا ہے۔ ڈین بریاڈی نے اپنی کتاب Halliburton Agenda : The politics of oil and money میں لکھا ہے کہ مسلم معاشروں پر حملوں کی وجہ تیل کی دولت پر قبضہ ہے اور اسے نام دہشت گردی کا دیا گیااور اس کام میں امریکہ حکومت کو میڈیا کی معاونت رہی جس نے مسلمانوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا ۔ کتاب کا نامHalliburton Agenda اس لیے رکھا گیا کہ تب کے امریکی نائب صدر ڈک چینی ٹیکساس کی آئل کمپنی Halliburton کے سی ای او رہ چکے تھے ۔ گویا مصنف کے نزدیک یہ ساری جنگ آئل کمپنی کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے تھی۔

برمنگھم سٹی یونیورسٹی کے انٹر نیشنل جرنل آن سائبر کرمنالوجی میں ’ اسلامو فوبیا آن سوشل میڈیا ‘ کے عنوان سے2016 میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ مغربی میڈیا اہتمام سے مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے پر تلا ہے۔ اسی بات کو فاکس نیوز کے برائن کلمیڈ نے یوں بیان کیا کہ بھلے ہر مسلمان دہشت گرد نہ ہو لیکن ہر دہشت گرد لازما مسلمان ہوتا ہے ۔ اب آپ ہی بتائیے اس بیانیے میں کلبھوشن کا نام کیسے لیا جاتا؟اس کے تذکرے کو سنسر ہی ہونا تھا۔

مغربی دنیا میں اس رویے کی ڈھیروں مثالیں موجود ہیں ۔ ایف بی آئی کے مطابق امریکہ میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے صرف 6 فیصد میں مسلمان ملوث پائے گئے۔ لیکن یونیورسٹی آف الینائس کے پروفیسر ٹراوس ڈکسن کے مطابق امریکی میڈیا میں زیر بحث آنے والے دہشت گردی کے 86 فیصد واقعات صرف وہ تھے جن میں مسلمان ملوث تھے ۔ گویا میڈیا نے اپنے وقت کا 86 فیصد حصہ صرف ان 6 فیصد واقعات پر صرف کر دیا جن میں مسلمان ملوث تھے اوران 94 فیصد واقعات کو صرف 14 فیصد کوریج ملی جن میں غیر مسلم ملوث تھے ۔ تناسب پر غور فرما لیجیے، بات سمجھ آ جائے گی ۔ چنانچہ سینڈی ہک کے سکول میں26 بچے قتل کر دیے جائیں یا لاس ویگاس میں 58 لوگ مار دیے جائیں تو یہ خبر میڈیا پر نہیں اچھالی جاتی کیونکہ حملہ آور مسلمان نہیں ہوتا۔

بولنگ گرین کا واقعہ تو ابھی کل کی بات ہے ۔ ٹرمپ کی مشیر کیلن کونوے نے کتنا تماشا کھڑا کر دیا کہ مسلمانوں نے قتل عام کر دیاہے۔ بعد میں پتا چلایسا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں تھا ۔ اسی طرح جولائی 2016 میں میونخ کے میکڈونلڈ میں فائرنگ ہوئی ۔ میڈیا نے الزام مسلمانوں پر عائد کر یا۔سی این این کے نامہ نگار میک کونل نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ دہشت گرد ’ اللہ اکبر‘ کے نعرے لگاتا حملہ آور ہوا ۔ بعد میں پتا چلا حملہ آور ایک عیسائی تھا اور اس کا نام ڈیوڈ سونبلے تھا ۔

چنانچہ اسے عیسائی دہشت گرد قرار دینے کی بجائے فورا دہشت گردی کے الزام ہی ختم کر دیے گئے اور میونخ پولیس چیف نے کہا یہ دہشت گردی نہیں تھی ، یہ محض فائرنگ کا واقعہ تھا ۔ اینڈریز بریوک نے اکیلے 70 سے زیادہ لوگ قتل کر دیے کسی نے اسے عیسائی دہشت گرد نہیں کہا ۔ ابھی پچھلے سال ایک جرمن کلب کی بس پر حملہ ہوا، الزام مسلمانوں پر لگا اور شور مچ گیا دہشت گردی ہوئی ۔ کچھ دنوں بعد معلوم ہوا یہ تو ایک جرمن شہری کا کام تھا ۔ چنانچہ فورا ہی سب سے پہلا کام یہ کیا گیا کہ دہشت گردی کی دفعات ختم کر دی گئیں اوراسے مالی تنازعہ قرار دے دیا گیا۔

دو سال قبل برطانوی پارلیمنٹیرین جو کاکس قتل ہو ئیں ۔ وہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاری کی شدید مخالف تھیں۔ چونکہ ان کا قاتل ٹامس مائر مسلمان نہیں تھا اس لیے کسی نے اسے دہشت گردی نہیں کہا ۔ قاتل صاحب کو پورے اہتمام سے ایک ہسپتال بھیج دیا گیا تا کہ ان کی اصلاح اور علاج ہو سکے ۔ جمال خاشگی کے قتل پر اسد عمر کو طعنے دینے والے برطانوی صحافی کو آج تک ہمت نہیں ہو سکی کہ وہ اپنی پارلیمنٹیرین کے قتل کے محرکات پر بات کر سکے۔

ڈاکٹرٹام ملز نے، جو Aston یونیورسٹی کے پروفیسر بھی ہیں،. بی بی سی کے ساتھ کام کیا ۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’ بی بی سی : متھ آف اے پبلک سروس‘‘ میں لکھا ہے کہ بی بی سی برطانوی اسٹیبلشمنٹ کا ماؤتھ پیس ہے ۔ ان کا دعوی ہے:’’ ہم لوگوں تک وہی بات پہنچاتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے‘‘۔
.
اب آپ ہی بتائیے، بی بی سی اور کیا کرتی؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے