حادثے منانے کیلئے نہیں سیکھنے کیلئے ہوتے ہیں

16 دسمبر کو لگا زخم ان روحوں کو تاحیات درد دیتا رہے گا جن کے جگر کے ٹکرے,جن کے پھول کھلنے سے پہلے ہی مسلے گے. باقی سب رسم دنیاں کے مصداق بات باقی ہے.حادثات کا رونما ہونا اس فانی زندگی کا لازمی جز ہے مگر غفلت کے نتیجے میں حادثہ بلاشبہ کسی سنگین غلطی کا نتیجہ ہی ہو سکتا ہے۔

ریاست ماں ہوتی ہے مگر نہ جانے کون سی بدقسمت گھڑی تھی جب اس ماں کو یہ ناخلف بیٹے ملے جن کو بس اپنی شکم.پروری سے آگے ان کی حوس نے دیکھنے اور سوچنے کی ہمت ہی نہیں بخشی. جیسے کہ پہلے عرض کیا کہ حادثات کا رونما ہونا کوئ اچنبهے کی بات نہیں اور نا ہی ان حادثات نے رکنا ہے مگر باشعور قومیں اس کا تدارک کرتی ہیں اگر وہ حادثات کو نہیں روک سکتں تو اپنے علم، عمل اور تدبرکے زور سے ان حادثات کی شدت کو کم ضرور کر دیتی ہیں مگر ہماری ترجیحات میں عوام کی کسی بھی تکلیف کو کم کرنا ہے ہی نہیں.
اس سے پہلے ملک جب دولخت ہوا تو بجاے ان عوامل کی نشاندی کی جاتی جس کے سبب ملک دو ٹکروں میں بٹا اس بات پے فخر کیا گیا کہ ہزاروں کی تعداد میں قیدی ہم واپس لائے ہیں اور سیاست دان فوج کو اور فوج سیاست دانوں کو زمہ دار قرار دیتے رہے اور دشمن خوشی کے شادیانے بجاتا رہا۔

دوسری بار 8 اکتوبر 2005 کو ملک نے ایک بڑے حادثے کو دیکھا اور اس دن آفس سے آتے ہوے میں ان لوگوں میں شامل تھا جو ایف ٹین مرکز میں گرے ٹاورز کے ملبے تلے لوگوں بچانے کے لیے اپنے ہاتھوں سے سیمنٹ کے بلاک ہٹا رہے تھے اور اس وقت اس ایٹمی قوت کے حامل ملک میں لوگ چیخ چیخ کر فریاد کر رہے تھے کہ کیا کوئ کٹر نہیں جن سے ان پھتروں کو کاٹا جا سکے مگر اسلام آباد کی انتظامیہ بے بس تھی اور بخدا اس دن لگا ہم بس بے مقصد جی رہے ہیں..اور چند لوگوں کی غلامی ہی ہمارا مقدر ہے۔ یہ وہ وقت تھا کہ ہمارے کرتا دھرتا کچھ سبق سیکھتے اور ایسے حادثات کی صورت میں اس کا تدارک سوچتے آنے والے حادثات سے بچنے کے لیے کوی پیش بندی کرتے مگر پھر یہاں ہماری ترجیحات آڑیآ گیں.

اور پھر اس قوم نے وہ سیاہ دن بھی دیکھا کہ جس کی سیاہی تا قیامت اپنا کالا پن ان دلوں میں ایک درد کی صورت قائم.رکھے گی کہ جن کے لخت جگر اس قوم کا مستقبل گھر سے کتاب لیکر رخصت ہوے تو واپس گھر کی بجاے ایسے گھر چلے گے جہاں سے کوئ واپس نہیں آتا.

یہاں میں کہوں گا وہ چلے نہیں گے ہم سب نے بیجھا ہے ہم سب اس کے قصور وار ہیں.عظیم قومیں اپنے حادثات سے سبق سیکھ کے آگے چلتی ہیں ہم صرف نیشنل ایکشن پلان بناتے ہیں اور اس سے آگے پھر ہماری ترجیحات بدل جاتی ہیں.

ملک کے کرتا دھرتا ادارے ہ کسی بھی طرح مال حرام جمع کرنیکا 24/7 اور سال کے 365 دن تن من سے مصروف عمل ہیں اور عوام کو مختلف قسم کے مشاغل میں مصروف کر دیا ہے جہاں امت مسلمہ کی ٹھیکداری اور دنیاں بھر کا درد ہمارے سینے میں ہے.. بس نہیں تو اپنے نشیمن کی فکر نہیں جس کا ایک ایک تنکہ خاکستر ہو رہا ہے.

برے دنوں کو منایا نہیں جاتا بلکہ یاد رکھا جاتا ہیسبق کے لیے اور اپنی سمت درست رکھنے کے لیے۔جب ہمارے کرتا دھرتا اس دن کی یاد منانے اور دشمن کے بچے کو پڑھانے سے فارغ ہو جاہیں تو ذرا ان اپنوں کی بھی سن لیں جن کے پھول سکول سے گھر کا راستہ بھول گے اور جن کی ماہیں آج بھی یقین نہیں کر پا رہی کہ ان کا بچہ سکول سے واپس نہیں آیا.
خدا رہا ان کے بچے تو واپس تم لا نہیں سکتے کچھ تو ان کے درد کا مداوا کر دو ان کی بات ہی سن لو جو مسلسل اس آس میں ہیں کہ اس بدترین حادثے کی مکمل اور شفاف تحقیق ہو اور غفلت کے مرتکب ہستیوں کا تعین ہو سکے۔ مگر ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے کہ بات مقدس اداروں کے گریبان تک جاتی ہے جہاں سے تمام تر انکورایوں کا یو ٹرن لینا لازمی بن جاتا ہے کیونکہ ہمارے یہ مقدس ادارے پاکستان کی عوام کو جواب دہ نیہں اور اس کا جواب آخرت سے پہلے ناممکن ہے۔ کہ وہاں تو رب کریم کی عدالت ہو گی اور کسی کے ساتھ بلاشبہ انصاف ہو گا۔

تبدیلی والی حکومت ابھی تک یقین نہیں کر پای کے وہ کنٹینر سے اتر کر اقتدار کی سیج پے بیٹھ چکی ہے اور اپنے ہی بوجھ تلے دبی جا رہی ہے یہ حکومت اپنی سمت ہی درست کر لے اور بولنا بند کر کے عمل پے توجہ دے لے تو صد شکر کا مقام ہو گا مگر سو دنوں کے چمتکاروں سے تو دہلی ہنوز دور است والی بات ہے۔ مستقبل کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

میں شرمندہ ہوں اپنے ان پھولوں سے جن کی ہم حفاظت نہیں کر سکے.اللہ پاک ان کے درجات بلند فرماے اور ان کے ماں باپ اپنے خصوصی کرم سے ہمت اور حوصلہ دے۔
امین۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے