تبلیغی جماعت اور اقتدار کی سیاست

عمران خان کے حق میں، مولانا طارق جمیل کے پُرجوش ویڈیو پیغام نے، ان کے مداحوں کی ایک بڑی تعداد کو مضطرب کر دیا ہو گا۔

تبلیغی جماعت نے خود کو کبھی مسلک کے پیرائے میں پیش نہیںکیا لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ وہ مسلک دیوبند کی نمائندہ جماعت ہے، جو دعوت کے میدان میں سرگرم ہے۔ اس مسلک کی سیاسی تجسیم کا نام جمعیت علمائے اسلام ہے جس کے قائد مولانا فضل الرحمن ہیں۔ تحریک انصاف اور جمعیت اقتدار کی کشمکش میں ایک دوسرے کی حریف ہیں۔ اہلِ جمعیت مولانا طارق جمیل سے یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ تحریکِ انصاف کے سربراہ کے حق میں ایسا پُر جوش بیان جاری کریں گے۔ یوں ان کا اضطراب قابلِ فہم ہے۔کسی حکومت یا سیاسی راہنما کی علانیہ تائید، تبلیغی جماعت کی تاریخ میں ایک نئی بات ہے۔ اس جماعت نے غیر معمولی حالات میں بھی کسی سیاسی قوت کا ساتھ نہیں دیا۔ یہ تقسیمِ ہند کے واقعے سے لا تعلق رہی۔

مشرقی پاکستان جب خانہ جنگی سے گزرا تو اس جماعت نے کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔ محقق یوگندر سکند کی تحقیق تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد جب جماعت اسلامی ابتلا کا شکار ہوئی تو اس سے تبلیغی جماعت کو کام کے لیے سازگار ماحول میسر آ گیا۔ بنگلہ دیش میں تبلیغی جماعت زیادہ پھلی پھولی۔ عمران خان تاریخ کے پہلے وزیر اعظم ہیں جن کے حق میں تبلیغی جماعت کی کسی نمائندہ شخصیت نے قوم سے اس طرح پُرجوش انداز میں ساتھ دینے کی اپیل کی ہو اور اس کے محاسن بیان کیے ہوں۔ تحریکِ انصاف چاہے تو اسے بلا خوفِ تردید ‘اوّلیاتِ عمران‘ میں شمار کر سکتی ہے۔

کیا مولانا طارق جمیل کو اس ردِ عمل کا اندازہ نہیں تھا؟ کیا یہ پیغام ایک مخلص داعی کی سادہ لوحی کا مظہر ہے؟ میرے نزدیک دونوں باتوںکا جواب نفی میں ہے۔ مولانا بہت سمجھ دار اور زیرک آدمی ہیں۔ وہ سیاسی حرکیات سے واقف ہیں اور مسلکی حساسیت سے بھی۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ عمران خان کی اس حمایت کا کیا ردِ عمل ہو سکتا ہے۔ وہ سمجھ سکتے ہیں کہ خود تبلیغی جماعت کے لیے اس کے کیا مضمرات ہوں گے۔ اس لیے میں یہ باور نہیں کر سکتا کہ یہ ایک سادہ بات ہے جو محض خیر خواہی کے جذبے سے کہہ دی گئی ہے۔

حکمت سے بے نیاز دعوت کتنی خطرنا ک ہو سکتی ہے، مولانا اس سے باخبر ہیں۔ چند دن پہلے انہوں نے آبادی سے متعلق کانفرنس میں جو تقریر کی، وہ اسی حکمت کا مظہر تھی۔ انہوں نے زیرِ بحث مسئلے پر کوئی واضح بات کہنے سے گریز کیا۔ ایسی مجلس میں دین کے باب میں اپنی رائے کے اظہار سے گریز مناسب نہیں، مگر اس وقت یہ میرا موضوع نہیں۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ مذہبی طبقے کی ناراضی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، اس مجلس میں کھل کر بات نہیں کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسا حکیم آدمی اگر چند روز بعد عمران خان کے حق میں ایک زوردار بیان جاری کرتا ہے تو یہ کیسے مان لیا جائے کہ وہ اس کے مضمرات سے واقف نہیں تھا۔ مذہبی سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ اس حمایت کا وہی ردِ عمل ہو سکتا تھا جو جمعیت کی طرف سے سامنے آیا۔

آبادی سے متعلق کانفرنس میں مولانا کی شرکت بھی ایک بحث طلب معاملہ ہے۔ مولانا کی شہرت ایک عالمِ دین کی نہیں، ایک داعی کی ہے۔ ایک داعی‘ جو عالم بھی ہے۔ تبلیغی جماعت کا لائحہ عمل یہی رہا ہے کہ ان کے ذمہ داران ایسی مجالس میں شریک ہوتے ہیں‘ نہ اختلافی مسائل پر کلام کرتے ہیں۔ 1976ء میں بھارت کی تبلیغی جماعت کو بھی ایک ایسا ہی مرحلہ درپیش ہوا جب حکومت نے ضبط ِولادت کی ایک مہم کا آغاز کیا تھا۔ یہ ایک پُر زور مہم تھی جس میں مردوں کو نس بندی کے لیے کہا گیا تھا۔ مضطرب مسلمان تبلیغی جماعت کے بڑے راہنما مولانا محمد زکریا کے پاس پہنچے کہ آپ راہنمائی کریں۔ مولانا نے جواب دیا: ”نماز پڑھیں‘‘۔ لوگوں نے کہا وہ تو ہم پڑھ رہے ہیں۔ اس پر فرمایا: ”دل سے پڑھو۔ اللہ مدد کرے گا۔‘‘

کہا جاتا ہے کہ مولانا نے واضح بات کہنے سے اس لیے گریز کیا کہ حکومت ناراض ہو جائے گی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایسا ہو اور تبلیغی جماعت کو کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے۔ مولانا طارق جمیل نے بھی مولانا زکریا کی طرح واضح بات نہیں کی لیکن کانفرنس میں شریک ہوئے۔ اس پر بھی دیوبند کے حلقے میں ردِ عمل ہوا۔ اس پس منظر کے باوجود، اگر انہوں نے عمران خان کے حق میں بیان جاری کرنا ضروری سمجھا تو یہ خالی از علت نہیں۔ میں اس علت سے واقف نہیں مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ اس سے پاکستان میں تبلیغی جماعت ایک بحران سے دوچار ہو گئی ہے۔

یہ اتفاق ہے کہ اِن دنوں، جماعت داخلی اختلافات کا شکار ہے۔ بھارت میں اس کے دو گروہ وجود میں آ چکے۔ بنگلہ دیش میں دو دن پہلے جماعت کے دو گروہوں میں خونیں تصادم ہوا‘ جس نے ایک آدمی کی جان لے لی۔ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ پاکستان اس سے محفوظ تھا لیکن اب ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ ضروری ہے کہ اس کا ابھی سے سدِ باب ہو۔

دعوت، علم و تحقیق اور سیاست، تین الگ الگ کام ہیں اور تینوں کے مطالبات ایک دوسرے سے مختلف اور بسا اوقات متصادم ہیں۔ اکابرین دیوبند کو غالباً اس کا اندازہ تھا، اسی لیے انہوں نے ان کاموںکو جمع کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے تینوں کو علیحدہ علیحدہ منظم کیا۔ دعوت کے لیے تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی۔ علمی روایت کو آگے بڑھانے کے لیے مدارس اور مراکزِ علومِ اسلامیہ قائم کیے۔ سیاست کے لیے جمعیت علمائے ہند بنائی۔ پاکستان میں اس کی جگہ جمعیت علمائے اسلام نے لے لی۔

اس تقسیم کو اُس اختلافِ رائے نے متاثر کیا جو تقسیمِ ہند کے باب میں پیدا ہوئی لیکن عام طور پر یہ تقسیم اس مسلک کے حق میں بہتر ثابت ہوئی۔ تینوں گروہ ایک دوسرے کے مضر اثرات سے محفوظ رہے لیکن ساتھ ہی، ایک دوسرے کی طاقت بنے رہے۔ مولانا طارق جمیل کے پیغام نے اس تقسیم کے پُرسکون پانیوں میں ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔

مولانا کو اپنے بارے میں ایک فیصلہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے ایک داعی کی شناخت سے جینا ہے یا ایک عالم کے تعارف سے۔ سیاست کا میدان بھی ان کے لیے کھلا ہے۔ اگر وہ داعی ہیں تو پھر انہیں سیاست کی حریفانہ کشمکش سے دور رہنا ہو گا۔ انہوں نے ہمیشہ بڑی خوب صورتی کے ساتھ اپنی حدود کا لحاظ رکھا ہے۔ وہ ہر حکمران سے ملتے اور اسے انذار کرتے رہے۔ اسی تناظر میں انہوں نے عمران خان سے بھی ملاقات کی۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح حکمرانوں سے خیر خواہی کا تعلق رکھنا اور ان کے لیے دعا کرنا نہ صرف ایک داعی کے شایان شان بلکہ اس کی ذمہ داری ہے۔

تاہم، ایک سیاسی حکمران کی حق میں پرجوش بیان جاری کرنا، میرا خیال ہے کہ ایک داعی کی حدود سے تجاوز ہے۔ تبلیغی جماعت کا حلقہ تمام سیاسی جماعتوں کو محیط ہے۔ ایسے بیان کا مطلب ان لوگوں کو ناراض کرنا ہے جو عمران خان کے مخالف ہیں۔ اس سے دعوت کو نقصان پہنچتا ہے۔ میرا حسنِ ظن ہے کہ یہ مولانا کی دیانت دارانہ رائے ہے لیکن اگر وہ اس کا فروغ بھی چاہتے ہیں تو پھر ان کی اصل جگہ دعوت نہیں، سیاست ہے۔ اگر وہ تحریکِ انصاف میں شامل ہو جائیں تو اس پر کوئی اخلاقی سوال پیدا نہیں ہو گا۔

اگر مولانا دعوت کو ترجیح دیتے ہیں تو پھر تبلیغی جماعت اور دعوت کے امکانات کو انتشار اور نقصان سے محفوظ رکھنا، ان کی اولیں ذمہ داری ہے۔ اقتدار کی سیاست پیچیدہ ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد بلا شبہ تبلیغی جماعت پر سب سے مستند محقق تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ایوب خان نے جماعت اسلامی کو نقصان پہنچانے کے لیے، تبلیغی جماعت کی تائید کی اور مقابلے میں اسے ابھارا۔ میں مولانا کے بیان کے علت سے واقف نہیں لیکن میری خواہش ہے کہ تبلیغی جماعت کسی سیاسی ایجنڈے کے لیے استعمال نہ ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے