مکار بونے۔

قرآن پاک میں صاف صاف لکھا ہے کچھ کو کچھ لوگوں پر فوقیت ہے۔کوئی کم عقل ہے کوئی زیادہ عقل والا ہے۔کوئی بخت والا ہے کوئی بہترین دنیاوی تعلیم حاصل کر کے ان پڑھ بخت والے کے پاس ملازم ہے۔کسی کو قدرت نے اچھی آواز دی ہے کوئی سائنسی ذہین لے کر پیدا ہوتا ہے ۔کسی کو کاروباری سوجھ بوجھ قدرت کی طرف سے ملتی ہے کوئی صرف ملازمت کرنے کی ہی صلاحیت رکھتا ہے ۔ یہ کونسے زمینی خدا ہیں جو دھمکیاں دیتے ہیں سو ارب دو یا پھر 1984 والی گاڑی میں واپس چلے جاو ۔دنیا بھر میں لوگ کاروبار کرتے ہیں جنہیں زیادہ کاروباری سوجھ بوجھ ہے وہ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں ۔

لوگوں کو ملنے والی قدرتی صلاحیتیں معاشرے کیلئے خدائی عطیہ ہوتی ہیں ۔سب لوگ یکساں صلاحیت کے حامل ہوتے تو سب ہی کارخانے دار ہوتے ۔سب دولت مند ہوتے اور سب جاگیردار ہوتے تو پھر معاشرہ کیسے چلتا ۔یہ ممکن نہیں ہوتا سب انسان برابر نہیں ۔کسی کو کسان بننا ہے ،کسی کو مزدور اور کسی کو اپنے خدا کی طرف سے ملنے والی صلاحیت کے مطابق معاشرہ کیلئے اپنا مقررہ کردار ادا کرنا ہوتا ہے ۔جو چیف جسٹس دھمکیاں دیتا ہے 1984 کی گاڑی میں واپس جانے کی کبھی وہ عام سا وکیل تھا ۔کبھی اس کے بچے کم فیس والے سکولوں میں زیر تعلیم تھے ۔اس وکیل کے بے شمار ساتھی آج بھی اپنے ماضی جیسے حال میں ہیں ۔اس وکیل کے پاس صلاحیتیں تھیں اس کو راستہ بنانا آتا تھا ۔یہ بخت والے ایک سیاستدان کی سیاسی جماعت کے دفتر میں جایا کرتا تھا ۔یہ وکیل راستے بناتا ہوا اس سیاستدان کے قریب جا پہنچا اور پھر موقع پا کر اپنے سیاسی دوستوں کی مدد سے سیکرٹری قانون بن گیا ۔اس وکیل کو راستہ بنانا آتا تھا ۔جنرل مشرف نے مارشل لا لگایا بھاگ کر حلف اٹھا لیا اور پھر ایک دن ایسا آیا یہ وکیل دھمکیاں دینے لگا ۔

ٹھیک ہے ایک شرط پر 1984 میں واپس چلے جاتے ہیں یہ وکیل بھی 1984 میں واپس چلا جائے ۔اگر یہ وکیل اپنی خداداد صلاحیت سے دھمکی دینے والی حیثیت اختیار کر سکتا ہے تو کیا کوئی دوسرا خداداد صلاحیت سے ترقی نہیں کر سکتا ۔اگر وکیل غیر آئینی اور غیر قانونی حلف اٹھا کر بھی حب الوطنی کی معراج پر براجمان ہو سکتا ہے تو کوئی دوسرا کیسے غدار اور ملک دشمن کہلا سکتا ہے ۔

بونوں نے اس ملک کو تباہ کر دیا ہے ۔یہ اپنے عہدہ کی وجہ سے خدا کے لہجے میں بولنے لگتے ہیں ۔کل تمغہ جمہوریت لینے والا جنرل ایک سیاسی جماعت بنا بیٹھا اور پھر عہدہ ختم ہوا خدا کے بندوں نے اس کی جماعت کو ٹھوکریں مار کر مسترد کر دیا ۔ایک اور جنرل بھی خود کو مسیحا سمجھنے لگا اس کی قائم کردہ سیاسی جماعت کو بھی عوام نے ٹھوکروں میں اڑا دیا اور آج ایک ہسپتال میں ایک خدائی بیماری کا شکار موت کا منتظر ہے۔ اس سے پہلے ایک اور شخص یہاں تخت نشین تھا وہ بھی وزیراعظم کو توہین عدالت میں نااہل کرتا تھا آج اتنا بے بس ہے اپنے داماد کے خلاف کاروائی بھی نہیں روک سکتا ۔

اس وکیل کا وقت بھی قریب ہے اس کا نشہ ختم ہونے کے لمحات تیزی سے قریب آ رہے ہیں ۔تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا ۔کل ان عقل کے اندھوں نے اخباری سرخیوں میں زندہ رہنے کیلئے ترکش کمپنی "کار کے” کے خلاف فیصلہ دیا ۔کل ان جاہلوں نے بلوچستان میں ایک غیر ملکی کمپنی کے خلاف ریکو ڈیک ٹھیکہ منسوخ کرنے کا فیصلہ دیا آج پاکستان کو عالمی ثالثی عدالتوں میں اربوں ڈالر کے جرمانوں کا سامنا ہے ۔کیا اس ملک میں کوئی دن ایسے آئیں گے جب آئین اور قانون کو اپنے ذاتی مقاصد کیلئے استمال کرنے والوں کے خلاف بھی کاروائی ہو گی ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے