ناقابل فراموش رومیؒ

ہماری تاریخ میں چند ایسی شخصیات گزری ہیں کہ قیامت تک ان کے نام احترام و تکریم سے لئے جاتے رہیں گے، انبیاء کرام، صحابہ کرام، ولی اللہ کو تو ہم سب ہی جانتے ہیں لیکن دو ایسی ہستیاں گزری ہیں جو نہ صرف ادب بلکہ روحانیت میں بھی بہت مشہور ہیں یہ حضرت شیخ سعدی ؒ اور مولانا رومیؒ ہیں۔ دونوں زندہ جاوید ہیں اور ان کی نصیحت آمیز حکایتیں اسلامی دنیا میں ہی نہیں بلکہ مغربی دنیا میں بھی بے حد ہردلعزیز اور مشہور ہیں۔ ان کی لاکھوں کتابیں وہاں شائع ہوچکی ہیں اور لاتعداد لوگوں نے ان کے کلام سے صحیح طور پر لطف اندوز ہونے کی خاطر فارسی زبان پر عبور حاصل کیا اور سعدیؒ کی گلستان و بوستان اور رومیؒ کی مثنوی کے ترجمے کئے۔ اس کالم میں مولانا رومیؒ کی ایک حکایت بیان کرونگا جو نہایت دلچسپ اور سبق آموز ہے۔

مولانا رومیؒ کو تصوف (صوفی اِزم) کا بانی تصور کیا جاتا ہے سفید لمبے کرتے پہنے، لال ٹوپی والے رقص کرتے درویش اس فقہ کی خاص پہچان ہیں۔ یہ ایک ہی جگہ کھڑے ہو کر ہاتھ گھما گھما کر رقص کرتے ہیں اور وجد میں آجاتے ہیں۔ درویشوں کو رقص میں دیکھ کر ناظرین بھی وجد میں آجاتے ہیں۔مولانا جلال الدین رومیؒ 6 ربیع الاوّل 604 ہجری کو بلخ (اس وقت فارس کا حصّہ تھا) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام شیخ محمد بہائو الدین اور خود کا اصل نام محمد جلال الدین رومیؒ تھا۔ آپ اپنے وقت کے جیّد عالم تھے۔ انھوں نے اللہ سے لگائو کا حال اپنے ایک شعر میںبیان کیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے۔

’’جب میں نماز پڑھتا ہوں خدا کی قسم مجھے یہ معلوم نہیں رہتا کہ رکوع پورا ہوگیا ہے اور امام کون ہے۔‘‘

آپ کا انتقال 5 جمادی الثانی 672 ہجری کو قونیہ (ترکی) میں ہوا اور وہیں دفن ہیں۔ آپ کی مثنوی کے اشعار کی تعداد تقریباً 26600 ہے۔

ہمارے یہاں نام نہاد پڑھے لکھے، دانشور تک مذہب اور اپنی ثقافت کے بارے میں بے بہرہ ہیں سورۃ اخلاص تک نہیں پڑھ سکتے گویا اپنے والدین اور عزیز و اقارب کیلئے فاتحہ پڑھنے تک کی صلاحیت نہیں ہے، ہماری ثقافت کے بارے میں کیا خاک جانیں گے۔ اسی وجہ سے میں وقتاً فوقتاً اپنی نہایت اعلیٰ ثقافت کے بارے میں کچھ نہ کچھ عوام کی معلومات کے لئے لکھتا رہتا ہوں۔ اگر سائنس، ٹیکنالوجی کے بارے میں لکھوں تو عوام کیا، نام نہاد، خودساختہ دانشور بھی نہ سمجھ سکیں گے۔ آج مولانا رومیؒ کی مثنوی سے ایک دلچسپ اور سبق آموز واقعہ آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔ مثنوی کا یہ ترجمہ مرحوم اسکواڈرن لیڈر ولی الدین (ولد ایئر مارشل علی الدین) کے مرہون منت ہے۔

’’اب ان رہنمائوں کا قصہ سنو جو دنیا میں (حق کی مرضی پر) کوئی اعتراض نہیں کرتے (کسی حالت میں بھی شکوہ تک نہیں کرتے) دعا کرنے والوں میں سے (اس قسم کے) دوسرے ہیں جو کبھی سیتے ہیں کبھی پھاڑتے ہیں۔ میں اولیاء میں سے ایک اور قوم کو بھی جانتا ہوں جس کا منہ دعا سے بند رہتا ہے۔ چونکہ ان کا معمول رضا ہے تو (حق کی) قضا کے فیصلہ کو روکنے کے لئے جستجو ان پر حرام ہے۔ وہ قضائے الٰہی میں خاص مزہ محسوس کرتے ہیں۔ خلاصی چاہنا ان کو کفر محسوس ہوتا ہے۔

ان کے دل پر حسن ظن (ہر چیز میں بھلی امید) ایسا طاری ہوگیا ہے کہ وہ غم میں بھی کالا کپڑا نہیں پہنتے۔ جو ان کو پیش آتا ہے اچھا لگتا ہے اگر آگ ہو تو آب حیات بن جاتی ہے۔ انکے گلے میں زہر بھی شکر ہوجاتا ہے۔ انکے راستے میں پڑا ہوا پتھر جواہر بن جاتا ہے۔ ان کیلئے اچھا برا سب یکساں ہے یہ (حال) کیوں ہوتا ہے۔ یہ اپنے حسن ظن (اچھی امید) سے ہوتا ہے۔ (تب ہی تو) یہ دعا کرنا کہ اے خدا اس قضا کو لوٹا دے۔ ان کے نزدیک کفر ہوتا ہے۔

(ایسے راضی بہ قضا والے) اس ایک درویش سے حضرت بہلول نے پوچھا کہ اے درویش مجھے بتا دے کہ تو کیسا ہے۔ اس نے کہا کہ وہ شخص کیسا ہوگا جس کے ارادے کے مطابق ہمیشہ دنیا کے کام چلتے ہیں۔ سیلاب اور نہر بھی اس کے ارادے کے مطابق جاری ہوں۔ ستارے جس طرح وہ چاہے ہوجائیں۔ زندگی اور موت اس کے سپاہی ہوں جو اس کے ارادے کے مطابق کوچہ بہ کوچہ روانہ ہوں۔ وہ جہاں چاہے غم اور ماتم کو روانہ کردے۔ وہ جہاں چاہے خوشیاں مبارکبادیاں بخش دے۔ سالکان راہ بھی اس کے نقش قدم پر ہوں۔ راہ سے رہ جانے والے بھی اس کے جا ل میں ہوں۔

اس کی فرمانروائی رضا اور حکم کے بغیر دنیا میں کوئی دانت نہ مسکرائے۔ اس کی منشاء کے بغیر کوئی پتہ نہ گرے۔ اس کے حکم کے بغیر کوئی موت نہ آئے دنیا میں اوج ثریا (ستاروں کی بلندی سے) مچھلی تک (زمین تک) اس کے ارادے کے بغیر کوئی رگ تک نہ پھڑکے۔حضرت بہلولؒ نے کہا۔ اے شاہ آپ نے سچ کہا۔ ایسا ہی کچھ آپ کے چہرے اور شان سے ظاہر ہوتا ہے۔ اے صادق آپ ایسے ہی بلکہ اس سے سیکڑوں گنا ہیں لیکن اسکی تشریح فرما دیجئے۔ اور ایسے طریقے سے صاف صاف بیان کردیجئے کہ فاضل اور جاہل ا س کو دل و جان سے قبول کرلیں۔

اس کی شرح ایسے الفاظ میں کردیجئے کہ عوام کی عقل بھی اس سے کچھ حاصل کرلے۔ ناطق کامل (بولنے والا کامل) جب خوان پھیلاتا ہے تو اس کے خوان پر ہر قسم کا کھانا ہوتا ہے۔ (عام کے لئے بھی خاص کے لئے بھی) تاکہ کوئی مہمان بے سہارا نہ رہ جائے۔ ہر شخص الگ الگ اپنی غذا حاصل کرے (جیسے کائنات کی مخلوق) قرآن پاک جو معنی کے اعتبار سے سات سطح پر ہے۔ اس میں خاص و عام کی غذا ہے۔ ان ولی نے کہا کہ یہ تو آپ سب کو یقین ہے کہ دنیا خدا کے حکم کی فرماں بردار ہے۔بغیر عرش کے بغیر اس سلطان کی قضا اور حکم کے درخت سے کوئی پتہ نہیں جھڑتا۔ لقمہ تک منہ سے گلے میں نہیں جاتا۔ جب تک کہ حق تعالیٰ نہ فرمادے کہ داخل ہوجا۔

اپنے میلان اور رغبت کی حرکت اس غنی (حق) کے حکم کی فرماں بردار ہے۔ اور یہی (میلان اور رغبت) آدمی کی باگ بنی ہوئی ہے۔ (کہ کسی جانب اس کا رخ کرتی ہے) بغیر اس کے جاری ہونے والے ازلی حکم کے جس کی شرح نہیں کی جا سکتی۔ نہ اس شرح کی ہمت کرنا اچھا ہے کوئی ذرہ زمینوں اور آسمانوں میں پر نہیں مارتا۔ کوئی تنکا گردش نہیں کرتا، درختوں تک کے سب پتے کون گن سکتا ہے۔ تو پھر اس لامحدود کی باتیں الفاظ (کے بیان) کے کب تابع ہوسکتی ہیں۔ اتنا سن لے کہ جب تمام کام بغیر خدا کے حکم کے نہیں ہوتے تو پھر جب بھی حق کی قضا بندےکی رضا بن جاتی ہے تو بندہ اس کے حکم کا چاہنے والا بن جاتا ہے۔ ثواب اور بدلے کی خاطر نہیں بلکہ بغیر کسی تکلیف کے اس کو قبول کرتا ہے۔ بلکہ اس کی طبیعت اس پر خوش ہوجاتی ہے۔

اب وہ بندہ اپنی زندگی اپنی خاطر نہیں چاہتا۔ بلکہ ذات واحد کے حکم کی وجہ سے چاہتا ہے۔ جہاں کہیں بھی اللہ تعالیٰ کے ازلی حکم کا مسلک لوگوں نے اختیار کیا ہے انکے سامنے زندگی اور موت یکساں ہوگئی ہے۔ ایسا شخص خدا کے لئے مرتا ہے نہ کہ جنت کے لئے اور اس کے درختوں اور شہروں کے لئے۔ اس کا کفر چھوڑنا بھی حق تعالیٰ کے لئے ہے۔ (اپنے محبوب کی لاج کے لئے ہے) نہ کہ اس ڈر سے کہ وہ جہنم میں جائے گا۔ یہ اس کی عادت (اور مسلک) اس کی (بنیاد وجود) اصل سے ایسی ہی آئی ہے۔ (محبوب پر نثار ہونا اس میں ودیعت ہے) اور یہ بغیر کسی مجاہدے اور بغیر اس کی تلاش اور طلب کے (اسے حاصل ہے)۔

(تب ہی تو) اس کے لئے اللہ کا حکم حلوے اور شکر کی طرح ہے۔ وہ اس وقت ہنستا ہے جب رضائے حق دیکھتا ہے۔ تو وہ بندہ جس کی عادت اور خصلت ایسی ہو تو کیا یہ جہاں اس کے حکم اور فرمان کے مطابق نہ چلے گا۔ تو پھر وہ بندہ کیوں خوشامد اور دعا کرے کہ اے اللہ اس قضا کو واپس لے لے۔ اس کی اپنی موت اور اس کی اولاد کی موت حق کے لئے اس کی نگاہوں میں ایسی ہے جیسا کہ منہ میں حلوہ اور وفادار کے لئے اولاد کی موت ایسی (اطمینان بخش ہے) جیسے کسی مفلس بوڑھے کے لئے پھل تو ایسا شخص کیوں دعا کرے؟

ہاں وہ اس وقت کرے جب دعا میں اللہ تعالیٰ کی رضا دیکھ لے۔ وہ ہدایت یافتہ بندہ، وہ سفارش اور وہ دعا اپنے اوپر رحم کے لئے نہیں کرتا۔ اپنے رحم کو اس نے اس وقت پھونک دیا تھا جب اس نے عشق کا چراغ روشن کیا تھا۔ عشق ایسے (خود پرستی کے) اوصاف کی دوزخ ہے۔ اور اس نے اپنے اوصاف کو (خواہشوں کو) بالکل جلا دیا ہے۔ ہر سالک اس فرق کو (کہ دعا بھی ہو تو اللہ کی مرضی سے ہو) کب سمجھتا ہے جیسا کہ دقوقی ؒ جیسے بھی اس دولت میں نہ دوڑے (اس کو سمجھ نہ سکے)۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے