شہد کی مکھیوں کو ڈرون بنانے کا تجربہ

واشگٹن: شہد کی مکھیاں بہت طویل فاصلہ طے کرتی ہیں۔ ان کی پیٹھ پر ہلکے برقی آلات لگا کر ایک وسیع علاقے کے متعلق معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔

یونیورسٹی آف واشنگٹن میں پال ایلن اسکول آف کمپیوٹر سائنس اینڈ انجینئرنگ کے شیام گولکاٹا اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ عام ڈرون 20 سے 30 منٹ تک پرواز کرسکتا ہے اور اسے دوبارہ چارج کرنا ہوتا ہے لیکن اگر مکھیوں پر نہایت مختصر اور نفیس آلات لگا دیئے جائیں تو وہ کئی گھنٹوں تک ڈرون بن کر ہمیں کسی علاقے کا درجہ حرارت، نمی یا فصل کی کیفیت سے آگاہ کرسکتے ہیں یوں زندہ مکھیاں بہت کارآمد برقی ڈرون میں بدل سکتی ہیں۔

ماہرین نے برقی آلات کا ایک ایسا مجموعہ تیار کیا ہے جس میں کئی طرح کے سینسرموجود ہیں جو کسی بھی علاقے کی خبر دے سکتے ہیں۔ انہیں چلانےوالی بیٹری ایک مرتبہ چارج ہونے کے بعد سات گھنٹے مسلسل چلتی رہتی ہے اور جوں ہی مکھیاں واپس اپنے چھتے میں جاتی ہیں تو رات کے وقت بیٹری چارج ہونے لگتی ہے۔

ماہرین کا دعویٰ ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی محنتی کیڑے کو ڈرون بنانے کا تجربہ کیا گیا ہے لیکن اس میں کئی مسائل آڑے آئے۔ ننھی مکھی زیادہ وزن نہیں سہار سکتی جبکہ جی پی ایس ریسیور بہت زیادہ توانائی استعمال کرتے ہیں۔ ان دونوں کے لیے ماہرین نے کئی ٹیکنالوجی کو آزمایا اور آخرکار یہ مسائل حل کرلیے۔

پہلے مرحلے میں مکھیوں پر صرف سادہ ٹریکنگ آلات لگائے اور انہیں 10 انچ کے فاصلے تک اڑایا۔ اس پورے سامان کا وزن 102 ملی گرام تھا جو چاول کے سات کچے دانوں کے برابر ہے اور چارج ہونے والی بیٹری کا وزن 70 ملی گرام تھا جبکہ بقیہ 30 ملی گرام میں تمام سینسر اور آلات لگائے گئے۔

چونکہ جی پی ایس اینٹینا زیادہ بجلی کھاتا ہے اس لیے ماہرین نے مکھی کا محلِ وقوع ناپنے کے لیے لوکلائز تکنیک کی طرز پر جگہ جگہ بیس اسٹیشن قائم کرکے کئی انٹینا لگائے جس سے مکھیوں کی پوزیشن کو 80 میٹر کے اندر اندر جاننے میں مدد ملی۔ اس کے بعد کئی سینسر سے مکھیوں کو آزادانہ گھمایا گیا اور اس سے ڈیٹا لیا گیا۔

چھتے میں واپسی پر ’بیک اسکیٹر‘ نامی طریقے سے مکھیوں کا ڈیٹا جمع کیا گیا۔ اگلے مرحلے میں ڈرون مکھیوں پر کیمرے لگا کر براہِ راست کسی جگہ کی ویڈیو بنانا ممکن ہوسکے گا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس تحقیق سے نہ صرف فصلوں اور باغات میں تحقیق پر مدد ملے گی بلکہ کسان ڈرون کے مقابلے میں مکھوں کے ذریعے بہتر طور پر اپنی زراعت کو سمجھ سکیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے