عام آدمی سے لے کر سیاستدان بیوروکریٹ مذہبی اور سماجی و سیاسی راہنما ،وطن عزیز کے اندر پیدا شد ہ صورت حال کا ذمہ دار نظام کی خرابی کو گردانتے ہیں ،نظام کی خرابی میں سب سے خطرناک چیز اداروں کے اندر ہونے والی بدانتظامی ہے ۔یہ بد انتظامی فرائض سے غفلت کے نتیجے میں بھی ہوتی ہے اور مالی کرپشن بھی اس کی ایک بڑی دجہ ہے ۔ کرپٹ عناصر خواہ وہ کوئی ہو ،کہیں ہو، ان کا بلا امتیاز احتساب ہی ملک کو اندھیروں سے نکال سکتا ہے ۔
ایسے بیانات ہم سیاستدانوں کے منہ سے اکثر سنتے رہتے ہیں ۔مگر عملی طور پر جب جب احتساب کا عمل شروع ہوا ، احتساب کرنے والے تنقید کی زد میں آئے ۔ نیب نے پاکستان کے اندر کرپشن کے خاتمے کا بیٹرہ اٹھایا تو اسے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جن کا احتساب ہوا انہوں نے تنقید کی تو دوسروں نے حوصلہ افزائی ،لیکن جونہی حوصلہ افزائی کرنے والوں کی جانب بھی کوئی ہاتھ بڑھا انہوں نے بھی شور مچانا شروع کردیا۔ نیب کی کارروائیوں کو ٹارگٹ کرنا اور انتقامی وغیرہ قرار دے کر اپنے فالورز کومطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ۔
حالیہ کچھ سالوں میں نیب نے قابل تعریف اقدامات کئے اور بڑی بہادری اور دلیر ی سے بڑے بڑے مگر مچھوں کے گرد گھیرا تنگ کرکے عوام کے سامنے ان کے اصل چہرے آشکار کئے ۔عوام کوبتایا کہ کیسے ان کے ٹیکس کا پیسہ ذاتی مفادات کے حامل منصوبوں اور اقربا پروری کی نذر ہوتا رہاہے ۔ الیکشن گیم کو جیتنے والے یہ لوگ عوام کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں ان کا پیسہ لوٹتے ہیں اور جب ان کے گریبانوں پر ہاتھ پڑے تو پھر سے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں ۔
اکثر سیاستدانوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ عوام ان کا احتساب کریں ووٹ کے ذریعے ناکہ ادارے ۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ عوام کو بآسانی دھوکہ دے سکتے ہیں ۔مگرادارے ان کا کچا چٹھا کھول رہے ہیں ۔ پاکستان میں جیلوں اور حراست میں لئے جانے والے ”خواص“ کی جانب سے شور مچایا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ نامناسب سلوک رکھا جارہاہے اور انہیں تکالیف دی جار ہی ہیں ۔ جبکہ اصل حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے ۔ نیب لاہور کے ذمہ داران اگر اس پر منصوبہ بندی نہ کرتے تو شاید عوام آج بھی دھوکے میں ہی رہتے ۔ نیب کی جانب سے حراست میں لئے جانے والوں کی لسٹ میں خواجہ برادران یعنی خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کا اضافہ ہوا ہے ۔
جن کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہیں ۔ اس سے قبل میا ں شہباز شریف اور اب خواجہ برادران نے شکوہ کیا کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جارہا،مگر صحافیوں کے دورے نے سب کچھ عیاں کردیا۔ نیب نے انسانی حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہرممکن کوشش کررکھی ہے کہ ملزم کے ساتھ مناسب رویہ روا رکھا جائے اور ان کی عزت نفس کا بھی خیال رکھا جائے ۔ عصر حاضر میڈیا کا ہے ۔صحافی تحقیق کرتے ہیں یہ ان کا سب سے اہم فریضہ بھی ہے ۔
صحافت آئینہ ہے اوراس آئینے کے استعمال سے لوگ ڈرتے بھی ہیں مگر حالات کے تقاضوں اور ضرورت کے مطابق استعمال کرنا بھی چاہئے ۔نیب کی ٹیم نے اس کا درست اور بروقت استعمال کیا ہے ۔ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد، ڈپٹی ڈائریکٹر چوہدری اصغر ، ترجمان نیب لاہور ذیشان صاجب کی کاوشوں نے نیب کو اس ملک کی امید بنا دیا ہے ۔وہ وقت گزر گیا جب نیب کو آمر اپنے ہاتھوں میں استعمال کرنے کی مذموم کوششیں کرتا تھا اور اس ادارے کی ساکھ کو خراب کرنے میں پیش پیش رہا۔ مشرف دور میں نیب کی ساکھ پر لگنے والے داغ اب دھل چکے ہیں ۔
ڈیجیٹل ذرائع کے استعمال نے نظام کے اندر بھی شفافیت کویقینی بنا دیا ہے ۔اب کوئی چاہے بھی تو کیسز کے اندر ڈنڈی نہیں مار سکتا۔ نیب کا یہی شفاف نظام اس ملک کے نظام کو بھی بدل کر رکھ دے گا۔ نیب سے سب کو امیدیں وابستہ ہوچکی ہیں ۔
نیب کی سالانہ رپورٹ اس کی کارکردگی کامنہ بولتاثبوت ہے۔ نیب لاہور نے صرف اس سال 2 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروائے۔ 204 سفید پوش لوگوں کو جو معاشرے میں اپنے کالے کرتوتوں کے باوجود احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے کو گرفتار کیا ان میں پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف، وزیراعظم کے سابق پرسنل سیکرٹری فواد حسن فواد، سابق قومی اسمبلی کے ممبر راج قمر الاسلام ، پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلرمجاہد کامران جیسے اہم افراد شامل ہیں۔
دوسرے ذرائع سے نیب نے 5 ارب روپے سفید پوش جرائم پیشہ افراد سے نکلوائے۔ 34 نئے کیسز کھولے گئے اور 50 مقدمات احتساب عدالتوں میں پیش کردیئے گئے۔ نیب نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز، ان کے شوہر کیپٹن صفدر کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ مقدمے میں رہائی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی۔ادارے مضبوط ہوں ان کے اندر سیاسی مداخلت نہ ہو ، وہ اپناکام خوش اسلوبی سے انجام دیں تو نتائج سامنے آتے ہیں۔ نیب اور باقی قومی ادارے بھی اسی طرح کام کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کے اندر حقیقی تبدیلی رونما ہوگی جسے دیکھنا نہیں پڑے گا وہ تبدیلی نظر آئے گی۔ انشاءاللہ