سانحہ مشرقی پاکستان ۔۔ چند بنیادی باتیں

سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ایک اور حادثہ بھی ہوا ، بس ہم اس کا احساس نہیں کر پا رہے ۔ یہ حادثہ کیا ہے؟ یہ وہ بیانیہ ہے جومشرقی پاکستان کے حوالے سے ہمارے ہاں رائج ہو چکا ہے ۔ اس بیانیے کی روشنی میں ہر نقص اور ہر خرابی پاکستان میں تھی ۔ ہم اسی ناقص بیانیے کی روشنی میں معاملات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور مزید الجھ جاتے ہیں۔

یہ جھوٹا اور یک طرفہ بیانیہ ہمارے ہاں کیسے طاقتور ہوا ، اس واردات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن سے بہت پہلے مکتی باہنی کے گوریلے غیر بنگالیوں کا قتل عام شروع کر چکے تھے ۔ گاؤں کے گاؤں قتل کیے گئے اور عورتوں کی عزتیں لوٹی گئیں ۔ پاکستان کی وزارت اطلاعات نے ان دنوں باقاعدہ ایک حکم نامہ جاری کر کے میڈیا کو منع کر دیا کہ مغربی پاکستان میں ایسی کوئی خبر شائع نہ کی جائے ۔ وزارت اطلاعات کا خیال تھا کہ اگر مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کے قتل عام کی خبریں مغربی پاکستان میں شائع ہونے لگیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ رد عمل میں ان بنگالیوں پر کوئی ظلم ہو جو مغربی پاکستان میں موجود تھے ۔ چنانچہ مشرقی پاکستان میں بھارتی فوجی مکتی باہنی کے جتھوں کے ساتھ مل کر غیر بنگالیوں کو ذبح کرتے رہے لیکن یہاں ایک خبر بھی شائع نہ ہو سکی۔ مشرقی پاکستان میں لاکھوں غیر بنگالی کاٹ کر پھینک دیے گئے لیکن مغربی پاکستان میں کسی ایک بنگالی کو بھی کسی نے ہاتھ نہ لگایا ۔ لیکن اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ عوامی لیگ یک طرفہ پروپیگنڈا کرتی رہی ۔ ہمارا ذمہ ادارانہ رویہ ہماری کمزوری بنا دیا گیا اور ان کی شرپسندی ان کی طاقت بن گئی۔

پاکستان نے ایک قرطاس ابیض ضرور شائع کیا گیا تا کہ دنیا کو معلوم ہو اصل حقائق کیا تھے لیکن وہ بھی بہت تاخیر سے کیا گیا ۔ اس وقت تک عوامی لیگ اور بھارت کا جارحانہ پروپیگنڈا بڑی حد تک اپنا کام کر چکا تھا ۔ اس قرطاس ابیض کو دنیا نے ایک جوابی کارروائی سمجھتے ہوئے اتنی اہمیت نہ دی ۔ یہ پہلے شائع کر دیا گیا ہوتا تو نتائج کچھ اور ہوتے۔ لیکن ظاہر ہے یہ تاخیر نیک نیتی سے کی گئی تھی اور اس کا مقصد مغربی پاکستان میں مقیم بنگالیوں کو ممکنہ رد عمل سے بچانا تھا ۔ تاہم اس کے جو منطقی نتائج تھے وہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں . قتل عام کی جھوٹی کہانیاں پھیلائی گئیں ۔ اجتماعی عصمت دری کے جھوٹے الزام عائد کیے گئے۔ اولین مرحلے میں عوام لیگ اور بھارت کا یہ پروپیگنڈا اتنا شدید تھا کہ آج تک اس کے اثرات زائل نہیں ہو سکے۔

بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ہمارے ہاں اس حادثے کو فراموش کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ۔ دوسری جانب بھارت اور بنگلہ دیش نے جی بھر کر پروپیگنڈا کیا ۔ انہوں نے مکتی باہنی کے قاتل جتھوں کو آزادی کا سپاہی قرار دے کر ان کی عزت افزائی کی لیکن ہم نے البدر اور الشمس کے رضاکاروں کو ایک گناہ کی طرح بھلا دیا ۔ بنگلہ دیش اپنے مطیع الرحمن کی لاش پینتیس سال کی جدوجہد کے بعد یہاں سے لے گیا اور اعزاز کے ساتھ دفنایا جب کہ ہم بنگلہ دیش میں دفن اس میجر اکرم شہید کو بھی بھول گئے جسے ہم نے نشان حیدر دیا تھا ۔ ایک طرف خاموشی ہو اور دوسری جانب بھر پور ریاستی پروپیگنڈا ہو تو اس کا نتیجہ وہی نکلنا تھا جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔

پاکستان نے بنگلہ دیش کے لیے ہمیشہ نرم گوشہ رکھا اور بنگلہ دیش کو کبھی اپنا دشمن تصور نہیں کیا ۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان آج تک بنگلہ دیش کو دشمن نہیں سمجھتا ۔ ایک عجیب سی محبت ہے جو آج بھی پاکستانیوں کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے ۔ دشمن بھارت ہی تھا اور بھارت ہی ہے۔ چنانچہ بنگلہ دیش کے لیے عموی خیر خواہی کا رویہ اختیار کیا گیا ۔ یہاں تک کہ جس غدار کی وجہ سے راشد منہاس شہید ہوئے اس غدار کی میت بھی بنگلہ دیش کو دے دی گئی۔ پر ویز مشرف بنگلہ دیش گئے تو ڈھاکہ میں ان کی’’ قومی شہداء یاد گار‘‘پر بھی چلے گئے۔ لیکن اس سب کے باوجود بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے سر پر خون سوار رہا ۔ واضح معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے بزرگوں پر بغیر کسی ثبوت مقدمات چلا کر انہیں پھانسیاں دی گئیں ۔ بنگلہ دیش کے رویے کی اس شدت پسندی نے بظاہر اس کے موقف کو تقویت دی اور پاکستان کے خیر خواہی پر مبنی دھیمے رویے کو اس کی کمزوری سمجھا گیا۔

خرابی اقتدار کے ایوانوں میں تھی ، محاذ پر ہمارا سپاہی پورے بانکپن سے لڑا۔ لیکن کسی نے اس سپاہی کے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔ کاش کوئی لکھ ڈالے کہ ہمارا سپاہی کیسے لڑا۔ کتنی ہی کہانیاں ہیں مگر ہم گونگے ہو گئے ۔ بھارت کے جنرل مانک شاہ نے ہمارے کیپٹن احسن ملک کے عزم اور بہادری کی کھل کر تعریف کی لیکن ہمارے سماج میں سے کسی کو یہ تو فیق نہ ہو سکی ۔

ذرا مشرقی پاکستان کا نقشہ تو اٹھا کر دیکھیے۔ ہر طرف سے بھارت میں گھرا ہو۔پھر اپنی فوج کی نفری گن لیجیے۔ یہ بھی جان لیجیے کہ آپ اپنے سپاہی کو اسلحہ اور خوراک نہیں پہنچا پا رہے تھے ۔ زخمیوں کو طبی سہولیات تک دینا ممکن نہیں تھا ۔ ادویات نا پید ہو چکی تھیں ۔ لیکن دشمن کے تمام راستے کھلے تھے ۔ رسد و کمک کے ذرائع لا محدود تھے ۔ آپ کے ایک سپاہی کے مقابلے میں دشمن کے پندرہ سپاہی تھے ۔غلط فیصلے اقتدار کی ہوس میں ایوانوں میں ہوئے ، سپاہی سے کیا گلہ؟ کہیں تو انصاف کر لیجیے۔

دشمن کا یہ بیانیہ ہمارے داخلی تضادات کی وجہ سے مضبوط ہوا ۔ یہاں مارشل لاز لگتے رہے اور اہل سیاست کے ہاں ایک گرہ ڈل گئی ۔ فوج کے خلاف جب دشمن کا بیانیہ سامنے آیا تو اہل سیاست نے اس بیانیے کو رد کرنے کی کوئی ٹھوس شعوری کوشش نہیں کی ۔ فوج لڑتی ہے اور سماج اپنی فوج کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اہل سیاست نے فوج کو کشمکش اقتدار کا حریف تصور کرتے ہوئے اس پروپیگنڈے کا جواب دینے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی بلکہ بسا اوقات تو وہ اس کو فروغ دیتے پائے گئے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ یہ گرہ کیوں ڈلی اور یہ کیسے ختم ہو سکتی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس گرہ نے ہمارا بہت نقصان کیا۔

سانحہ مشرقی پاکستان کے باب میں ان چند بنیادی باتوں کو سمجھ لینے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے حقائق کیا ہیں ؟ اس سوال پر آئندہ نشستوں میں بات ہو گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے