کلید

کامیابی کی کلید اس کے سوا کچھ نہیں کہ حقائق کو تسلیم کیا جائے۔ ان سے مطابقت پیدا کی جائے اور ان کی روشنی میں فیصلے صادر کیے جائیں۔ چابی کے بغیر قُفل نہیں کھلا کرتے۔ حضورِ والا‘ حضورِوالا۔
نظری طور پر ہی سہی، افغانستان میں کارفرما صداقتوں کو مان لیا گیا ہے۔ امریکہ ‘ طالبان‘ افغان انتظامیہ اور پاکستان نے بھی۔ اب اندمال کا امکان موجود ہے۔

پینسٹھ فیصد علاقے پر طالبان کا قبضہ ہے۔ شمال کے سوا جہاں ازبکوں‘ ترکمانوں اور تاجکوں کی اکثریت ہے۔ غیر ملکیوں سے مفاہمت نہ کرنے والے سخت جان اور قوم پرست پختونوں کو عوامی تائید حاصل ہے۔ ماضی کے طالبان سے وہ کسی قدر مختلف ہیں۔ سماجی طور پہ قدامت پسند مگر ان میں کچھ تھوڑی سی حقیقت پسندی ہے۔ اسی لیے مذاکرات کے مواقع سے وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ کابل سمیت بڑے شہروں میں بھی امریکی مخالفت بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ سولہ برس کے دوران جہاں ایک جدید تعلیم یافتہ طبقہ نمودار ہوا ہے۔

ہیجان میں مبتلا‘ منقسم معاشرے میں بہترین اذہان کو بعض اوقات نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یک رخے پن کا اس میں غلبہ ہوتا ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی ان میں سے ایک ہیں۔ صلح جو‘ عالی ظرف‘ٹھنڈے دل و دماغ والے‘ حقیقت پسند جنرل‘ مائیکل ملن کو سمجھاتے رہے کہ ایک قبائلی سماج تاریخی عمل میں جدید معاشرے میں ڈھلتا ہے۔ جمع تفریق میں جنرل کا ذہن طاق ہے۔

امریکیوں سے بار بار انہوں نے کہا کہ ایک جدید افغان فوج کی تشکیل تقریباً نا ممکن ہے۔ اوّل تو اس کے لیے الگ سے ‘ آٹھ بلین ڈالر سالانہ درکار ہوں گے۔ ثانیاً باہم متصادم فوج کو قوم پرستی کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے ایک زمانہ لگے گا۔ امریکیوں نے چار بلین ڈالر سالانہ مختص کئے۔ انہوں نے شمال کے مکینوں سے فوج کو بھر دیا۔ یہ اس کا بنیادی تضاد ہے۔ آج ایک عشرے کے بعد صورتِ حال یہ ہے کہ جتنے لوگ مرتے یا فوج سے فرار ہوتے ہیں‘ اس قدر نئی بھرتی ممکن نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ وفاداری کا فقدان ہے۔

تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اقلیت تادیر اکثریت پہ حکومت نہیں کرتی۔ بھاڑے کے لوگ ادھورے‘ جلد باز‘ سطحی اور موقع پرست ہوتے ہیں۔ ان کے بل پر قومیں تسخیر نہیں کی جا سکتیں۔ اتنی ہی بڑی حماقت امریکیوں نے یہ کی کہ چین دشمنی میں بھارتیوں کو ایک بہت اہم کردار افغانستان میں سونپنے کی کوشش کی۔ افغان ہندو کشمکش کی تاریخ ایک ہزار برس پرانی ہے۔ شمال سے ہونے والے حملوں اور دوسرے عوامل نے افغانوں کو شکی مزاج بنا دیا ہے۔ پاکستانی مسلمانوں سے‘ صدیوں کی مشترک تاریخ کے باوجود‘ ابتلا میں تاریخی ایثار کے باوجود‘ اسلام آباد پہ پوری طرح کبھی انہوں نے بھروسہ نہ کیا تو بھارت پہ کیسے کریں گے۔

ان کے سب سے بڑے پہاڑی سلسلے کا نام کوہ ہندو کش ہے۔ اس کے سائے میں محمود غزنوی نے جے پال کے لشکروں کو کچل ڈالا تھا۔ پھر سترہ بار اس نے ہندوستان پہ یلغار کی۔ لاہور میں اپنا گورنر اس نے بٹھا دیا تھا۔ وہی ایاز‘ اقبالؔ کی شاعری میں جس کا کئی بار ذکر ہے۔ ”نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں‘‘۔

مغربی ذہن غلط طور پہ یہ سمجھتا ہے کہ انسانوں کی مادی ضروریات‘ ان کے اندازِ فکر کو یکسر بدل سکتی ہیں۔ اسی بنا پر مسلم معاشروں کا ادراک کرنے سے وہ قاصر رہا۔

برسوں سے عرض کر رہا ہوں کہ جیسے ہی پاکستان کو موقع ملا‘ انکل سام سے وہ پنڈ چھڑا لے گا۔ شاید وہ وقت قریب آن لگا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک عشرے میں چینی معیشت‘ امریکی معیشت سے بڑھ جائے گی۔ بیس برس کے بعد کیا ہوگا؟ تیس برس کے بعد کیا ہوگا؟

افغانستان کو ایسی پیشکش چین نے کی ہے‘ امریکی فوج کی موجودگی کے باوجود‘ جسے یکسر وہ نظر انداز نہ کر سکیں گے۔ ہرات کے راستے‘ وسطی ایشیا کے ذریعے ‘ یورپ سے جوڑنے کی پیشکش۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ بتدریج تین سے دس بارہ بلین ڈالر سالانہ کی یافت۔ آج بھی افغانستان کی تزویراتی اہمیت بہت ہے۔ اگر ایسا ہوا‘ اگر سی پیک کو افغانستان تک وسعت دینے کی پیشکش افغانوں نے قبول کر لی۔ کابل اور قندہار کے راستے گوادر سے اگر وہ جڑ سکے تو افغانستان کے معاشی دلدّر دُور ہو جائیں گے۔ ایک تاریخی عمل کا آغاز ہو جائے گا۔ افغانستان کو یکسر جو بدل ڈالے گا۔ اگر تعلیم فروغ پا سکی تو بتدریج جدید اقوام کی صف میں وہ کھڑا ہو سکے گا۔

علاقے میں امن اور قرار سے ایسے تغیرات رونما ہوں گے‘ جن کا آج صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔

ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے واپسی چاہتے ہیں۔ یہ پینٹا گان ہے‘ اب تک جو اڑا ہوا ہے ؛ کب تک وہ اڑا رہے گا۔ بے شک طالبان میں بھی تکان پیدا ہو چکی ہوگی‘ مگر انکل سام تو ابھی سے اضمحلال میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ افغان قوم کے مزاج شناس‘ اس آدمی نے جو آسمان سے زمین کو دیکھتا تھا یہ کہا تھا کہ افغانوں کی سخت جانی‘ بالآخر انہیں بچا لے جائے گی … اور یہ کہا تھا:
آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملتِ افغان در آں پیکر دل است
از فسادِ او فسادِ آسیا
در کشادِ او کشادِ آسیا
ایشیا کے پیکرِ آب و گل میں افغانستان قلب کی مانند ہے۔ اس کے فساد سے ایشیا میں فساد اور اس کی کشاد سے ایشیا میں کشاد۔

قیمت جب بڑھ جاتی ہے تو خریدار کو ہاتھ اٹھانا ہوتا ہے۔ طالبان کی کامیابیاں ان کا اعتماد برقرار رکھیں گی۔ محدود وسائل بھی گوریلا جنگ لڑنے والوں کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ اپنے زیر اثر علاقوں میں تاجروں سے وہ ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ منشیات کی آمدن اس کے سوا ہے۔ افغانستان میں امریکیوں کا کوئی مستقبل ہے اور نہ بھارتیوں کا۔ جس طرح دوسرے فریق راہ پہ آتے دکھائی دیتے ہیں‘ افغانستان کے باب میں رفتہ رفتہ پاکستان بھی حقیقت پسندی کی طرف بڑھا ہے۔ افسوس کہ داخلی کشمکش میں نہیں۔

”یہ انتخابات نہیں ہیں‘‘ الیکشن سے قبل ایک ممتاز غیر سیاسی شخصیت سے اس ناچیز نے کہا تھا ‘ جن کی معلومات ہم اخبار نویسوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے اکتائے ہوئے عوام اور اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کو قبول کر لیا۔ اب بھی اس کے لیے بڑی مہلت موجود ہے۔ ان کی واپسی کا آرزو مند کوئی نہیں‘ دونوں ہاتھوں سے سرکاری خزانہ جو لوٹتے رہے۔ قومی دفاع کے باب میں‘ جن پہ انحصار نہ کیا جا سکتا تھا۔ پیپلز پارٹی ایک صوبے تک سمٹ گئی‘ جہاں اب بھی ظلم اور لوٹ مار کا دور دورہ ہے۔ اس کی مہلت چنانچہ تمام ہو گئی۔ شہباز شریف کے سوا پورا خاندان یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ خوفناک دہشت گردی اور سرحدوں پہ یلغار کے ہنگام‘ قوم اپنی محافظ فوج کو رسوا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ با ایں ہمہ کارِ حکمرانی میں پی ٹی آئی بالکل بانجھ ثابت ہوئی۔

آدمی ششدر رہ جاتا ہے‘ جب شہریار آفریدی ایسے وزراء کو ایسی احمقانہ بات کرتے ہوئے سنتا ہے کہ اسلام آباد کی 75 فیصد بچیاں ہیروئن کی عادی ہیں۔ اساتذہ‘ والدین‘ میڈیا‘ پولیس‘ ایف آئی اے‘ ساری دنیا کیا اندھی ہے ‘ اللہ نے آنکھیں صرف شہریار آفریدی کو عطا کی ہیں؟ کیا یہ وہی صاحب نہیں جو راولپنڈی کے ایک تھانے میں گھس کر حوالاتیوں کو آزاد کرنے پہ مصر تھے؟

نئے پاکستان میں معاشی پالیسیوں پہ اتنی بار بات کی ہے کہ تکرار سے کوفت ہونے لگی ہے۔ یوں بھی کل حبیب اکرم نے اس موضوع پہ قلم توڑ دیا ہے۔ شاید ہی اس میں کچھ اضافہ کیا جا سکے۔ خاکسار کا اندازہ بھی یہی ہے کہ عمران خان کے لیے سال‘ ڈیڑھ سال کی مہلت ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے اکتائے لوگ پھر شاید برہم ہو کر اٹھ کھڑے ہوں۔

کامیابی کی کلید اس کے سوا کچھ نہیں کہ حقائق کو تسلیم کیا جائے۔ ان سے مطابقت پیدا کی جائے اور ان کی روشنی میں فیصلے صادر کیے جائیں۔ چابی کے بغیر قُفل نہیں کھلا کرتے۔ حضورِ والا‘ حضورِوالا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے