موازنہ مابین باپ بیٹا

کھلاڑیوں سے مجھے زیادہ دلچسپی نہیں چنانچہ میں اُن مقبول زمانہ کھلاڑیوں سے بھی پوری طرح متعارف نہیں جن کا نام بچے بچے کی زبان پر ہے، لیکن ایک ایتھلیٹ ایسے بھی ہیں جنہیں صرف میں یا ان کے حلقے کے کچھ دوسرے لوگ جانتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو ان کے نام کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بجنا چاہئے کہ وہ جس فیلڈ کے ایتھلیٹ ہیں اس میں ان کا کوئی حریف نہیں۔ یہ میرے دوست چوہدری اللہ وسایا ہیں، یہ کھانے کے ایتھلیٹ ہیں اور علامہ شکم پرور لدھیانوی کے ہم عصر اور ہم مشرب ہیں۔ میں نے بہت سی نجی اور اجتماعی دعوتوں میں چوہدری اللہ وسایا کو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا اور ہر بار دانتوں میں انگلی داب کر رہ گیا۔ کھاتے وقت ان پر استغراق کا عالم کچھ یوں طاری ہوتا ہے کہ انہیں گرد و پیش کی کچھ خبر نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح جیسے ایک فطری شاعر شعر کہتے وقت ایک خود فراموشی کے عالم میں نظر آتا ہے اور ایک ستار نواز ستار بجاتے ہوئے دنیا وما فیہا سے غافل ہوتا ہے۔

دراصل چوہدری اللہ وسایا موت کو ایک اٹل حقیقت سمجھتے ہیں چنانچہ وہ ہر کھانے کو اپنی زندگی کا آخری کھانا سمجھ کر کھاتے ہیں۔ چوہدری صاحب میں ایک صفت یہ ہے کہ وہ اس زمین پر اگنے والی ہر چیز کو اللہ تبارک و تعالی کی قابل قدر نعمت خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے جو چیز بھی دستر خوان پر آ جائے وہ اس سے منہ نہیں موڑتے کہ ان کا خیال ہے کہ انسانوں کی طرح کھانے پینے والی چیزوں کے بھی جذبات ہوتے ہیں اور ان سے منہ موڑ کر ان کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہئے۔ چنانچہ اگر دو من لکڑیاں بھی ابال کر ان کے سامنے رکھ دی جائیں تو وہ ان پر بھی نمک چھڑک کر کھا جائیں گے، تاہم میرے اس بیان سے یہ مفہوم بھی اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ چوہدری اللہ وسایا خوش خوراک نہیں۔ نہیں! ایسی کوئی بات نہیں۔

دراصل معاملہ خوراک کی دستیابی کا ہے کیونکہ ان کا موٹو ’’جیسی مل جائے، جہاں سے مل جائے‘‘ والا ہے لہٰذا وہ چُوزی اس وقت نظر آتے ہیں جب ان کے سامنے چُوز کرنے کے لئے کوئی ورائٹی ہو۔ ان کی مرغوب غذا مرغ ہے جسے وہ بزبان پنجابی ککڑ کہتے ہیں اور یہ لفظ زبان سے ادا کرتے وقت ان کے سارے چہرے پر دانت اُگ آتے ہیں۔ ایک محفلِ خور و نوش میں ان کے ساتھ شریک ہونے کا اعزاز مجھے بھی حاصل ہوا، ’’یہ اعزاز‘‘ کا لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ جس محفلِ خور و نوش میں وہ شریک ہوں اس کے دیگر شرکاء کے حصے میں کھانا نہیں، بس اعزاز ہی آتا ہے۔

اس روز میں حیران ہوا کہ لوگوں نے کھانا بھی شروع کر دیا لیکن چوہدری اللہ وسایا پوری بے نیازی سے اپنی جگہ پر کھڑے رہے۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو بولے میں پرہیزی کھانا کھاتا ہوں، تھوڑی دیر بعد بیروں نے یہ پرہیزی کھانا بھی میزوں پر سجانا شروع کر دیا اور یہ ککڑ تھا، جو ابھی ’’سرو‘‘ ہونا باقی تھا اور چوہدری صاحب اس بات سے واقف تھے۔ ان کے پرہیزی کھانے کی ایک شق یہ بھی سامنے آئی کہ وہ ایسے موقع پر شوربے سے پرہیز کرتے ہیں اور صرف بوٹیوں پر گزارہ کرتے ہیں۔ سو اس روز میں نے دیکھا کہ آخری آدمی جو ان کے پاس کھڑا تھا اور پلیٹ کے خالی ہونے کا منتظر تھا، وہ بیرا تھا۔ چوہدری اللہ وسایا برابر میں رکھی ہوئی پلیٹ میں ہڈیاں ڈال رہے تھے۔ میں نے پلیٹ دیکھی تو چنگیز خان کے لگائے ہوئے کھوپڑیوں کے مینار یاد آ گئے۔

چوہدری اللہ وسایا کسی زمانے میں بڑی باقاعدگی سے بڑے بڑے کلبوں کے عشائیوں میں بھی شریک ہوا کرتے تھے مگر اب گیٹ پر دعوت ناموں کی چیکنگ بہت سخت ہو گئی ہے۔ موصوف کے متعلق شنید ہے کہ ایک دفعہ کسی ہال میں ریسلنگ کے مقابلوں کے دوران یہ ناظرین کی صفوں میں بیٹھے تھے۔ مختلف النوع مقابلوں کے دوران یہ بیچ بیچ میں دونوں ہاتھ اٹھا کر انگڑائی لیتے اور کہتے کہ ’’ساڈا آئٹم نئیں آیا‘‘۔ ان کے ڈیل ڈول اور بے چینی کو دیکھ کر ناظرین بھی بڑی بے چینی سے ان کی باری کا انتظار کرنے لگے لیکن اس دوران مقابلے ختم ہو گئے حتیٰ کہ اسٹیج سیکرٹری نے اعلان کیا کہ اب ناظرین کھانے کیلئے برابر والے ہال میں تشریف لے چلیں۔ اس پر موصوف نے ایک بار پھر دونوں ہاتھ فضا میں بلند کر کے انگڑائی لی اور کہا ’’ساڈا آئٹم آ گیا جے‘‘۔

یا ایک محفل مجھے، ایسی یاد ہے جس میں آخر تک ایک شخص ان کے ساتھ شانے سے شانہ ملائے کھڑا رہا اور کھانے کے اس مقابلے میں وہ انہیں اینٹ کا جواب پتھر سے دیتا رہا۔ بالآخر چوہدری اللہ وسایا نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لئے اور اس وقت ان کے چہرے پر وہی تشویش تھی جو حکیم صاحب کی کم کھانے والی ہدایت پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے انہیں لاحق رہتی ہے، جبکہ ان کے برابر میں جو صاحب کھڑے تھے بلکہ ڈٹے تھے وہ خاصے بزرگ تھے اور کھانے کے دوران مسلسل ڈکار رہے تھے تاہم ان کے چہرے پر تشویش کے بجائے شانتی ہی شانتی تھی کیونکہ ان کے حکیم صاحب نے انہیں غالباً یہ بتایا تھا کہ ڈکار کا مطلب یہ ہے کہ پہلا کھانا ہضم ہو گیا ہے۔ اس روز چوہدری اللہ وسایا نے میرے ساتھ ایک جگہ جانا تھا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد جب میں نے انہیں چلنے کو کہا تو انہوں نے اس بزرگ کے کاندھوں پر ہاتھ رکھا اور کہا ’’ابا جی! اب چلیں‘‘ قاسمی صاحب کو دیر ہو رہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے