ڈالر پر انحصار کم کر کے روپے میں تجارت کرنا چاہتے ہیں: وزیر خزانہ

کوئٹہ: وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ ڈالر پر انحصار کم کر کے مقامی کرنسی میں تجارت کرنا چاہتے ہیں۔

کوئٹہ چیمبر آف کامرس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانمہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ ہمیں پورے ملک کی ذمہ داری دی گئی ہے، ہمیں ملک کے ہر علاقے کو ترقی کے مواقع دینا ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں صنعت اور زراعت بری طرح متاثر ہوئے ہیں، کوشش ہے ایسی پالیسیاں لائیں جس سے ملک کو فائدہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ وفاق اور بلوچستان حکومت دونوں مل کر صوبےکی ترقی کے لیے کام کریں گے۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہمیں نوجوانوں کو روزگارکے مواقع فراہم کرنا اور سی پیک کے اگلے مرحلے میں صنعت و تجارت کو فروغ دینا ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ ہم اس وقت برآمدات کو ترجیح دے رہے ہیں، ڈالر پر انحصار کم کر کے مقامی کرنسی میں تجارت کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گوادر اور بلوچستان کے بغیر سی پیک مکمل نہیں ہے، صوبے کے مختلف شعبوں کو بھرپور حصہ دار بنانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا میری سفارش ہو گی کہ صوبے میں اکنامک زون آئندہ پی ایس ڈی پی میں شامل کیا جائے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ لوگوں کو کاروبار کے طریقہ کار کے حوالے سے پروگرام لا رہے ہیں، خواتین تاجروں کو بھی مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت عوام کو غربت سے نکالنے اور کاروبار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

انہوں نے کہا کہ صنعت کاری کے لیے نجی شعبے کا تعاون ضروری ہے، گوادر میں ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اور اسپیشل اکنامک زون بنائے جا رہے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ بلوچستان کو اس کا حصہ ملے۔

ان کا کہنا تھا کہ حلال فوڈ کی عالمی مارکیٹ میں بلوچستان موثر کردار ادا کرتا ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ ہماری حکومت نے بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے، بھارت سے تجارت کو فروغ دینا چاہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمیں بھارت سے مثبت جواب نہیں ملا۔

ان کا کہنا تھا کہ خطے کے تمام ممالک سے تجارت اور مضبوط تعلقات چاہتے ہیں، ایران، پاکستان کے مابین تجارت، بینکنگ سے متعلق رپورٹ تیار کرنےکی ہدایت کی ہے

سرحدوں پر باڑ لگانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ اسمگلنگ سے ملکی تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، سرحد پر باڑ لگانے سے اسمگلنگ کا خاتمہ ممکن ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے