بہادر لوگ

جزئیات میں الجھے رہنا احمقوں کا شیوہ ہے۔ دانا وہ ہوتے ہیں جو بڑی تصویر دیکھتے ہیں۔ شاعر منیر نیازی نے کہا تھا : جس قبیلے کے سب لوگ بہادر ہوں‘ تباہی اس کا مقدر ہوتی ہے۔ہم بہادر لوگ!

میاں محمد نواز شریف کاکاروبار اسی وقت کیوں پھلتا پھولتا ہے‘ جب وہ اقتدار میں ہوں؟ جناب آصف علی زرداری حکومت کا حصہ بننے کے بعد ہی دولت کے انبار کیوں جمع کر سکے؟

یہ چند خاندانوں اور سیاسی پارٹیوں کا نہیں‘ پورے معاشرے کا المیہ ہے۔ احسن اقبال‘ مشاہد اللہ خان اور پرویز رشید کو الگ رکھئے۔ شریف خاندان کے بغیر وہ بے معنی ہوتے ۔ ایک لمحہ جھجک کے بغیر‘ شاہد خاقان عباسی ایسا بھلا مانس عدالتی فیصلے کی تحقیر کرتا ہے۔ایسی ڈھٹائی جو قوم قبول کرلے‘ اس کا انجام کیا ہوگا۔

اعتزاز احسن‘ قمر زمان کائرہ اور چوہدری منظور حسین ایسے لوگ بلا تامّل آصف علی زرداری کی وکالت کرتے ہیں۔

اخلاقی طور پہ معاشرہ جس پستی کا شکار ہے‘اب تو اس کا ماتم کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ مزے لے لے کر اخبار نویس تبصرے کرتے ہیں کہ نواز شریف اگر اڈیالہ میں ہوں گے تو کھانے کا بندوبست کیسا ہو گا۔ لاہور بھیج دئیے گئے تو خوانِ نعمت کیسا چمک اٹھے گا۔اور اس سے کتنا فائدہ ان کی سیاست کو پہنچے گا۔

عطا الحق قاسمی کا بیان یاد کیجئے: نواز شریف سے میں محبت کرتا تھا‘ آج بھی کرتا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔

ملک جائے بھاڑ میں‘قوم جائے بھاڑ میں۔ ہماری جان اور آبرو اس پہ قربان ‘ جو ہمیں سایہ فراہم کرے۔ منصب و مقام عطا کرے۔ چرنے چگنے کے لئے چراگاہ بخشے۔خوف کے مارے ہم وہ بھوکے اور لاچار ہیں‘ آقائوں کے بغیر جو جی نہیں سکتے۔

کیا یہ سماج المناک حد تک احساسِ عدم تحفظ کا شکار نہیں۔ احساس کمتری میں مبتلا نہیں؟

ہم ملک و قوم کا کوئی تصّور بھی رکھتے ہیں یا ہم میں سے ہر ایک کے لئے اس کی ذات اور خاندان ہی سب کچھ ہے۔
آج صبح بہت دیر تک یہ خیال دل میں ترازو رہا کہ جماعت اسلامی نے اپنے ساتھ کیا کیا؟ وہ پارٹی‘ اخلاقی اور علمی طور پر جس کی سب سے زیادہ آبیاری کی گئی۔وہ لوگ جو سب سے زیادہ پابندِ صوم و صلوٰۃ ہیں۔ نواز شریف کی کرپشن کے خلاف اعلانِ جنگ کے بعد‘ آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک سیٹ کے لئے نون لیگ سے مفاہمت کر لی۔ پانچ سال تک پختونخوا میں پی ٹی آئی کے اتحادی رہے۔ اور اب انہیں دنیا بھر کی خرابیاں عمران خان میں نظر آتی ہیں۔ اپنی پون صدی کی کمائی مولانا فضل الرحمن کے قدموں میں ڈھیر کردی۔ پارٹی کے بانی‘ مالی معاملات میں اجلے اور کھرے سید ابوالاعلیٰ مودودی سے‘ جن کی نفرت ڈھکی چھپی نہیں۔ جو انہیں اپنے مکتب فکر کا غدّار سمجھتے ہیں۔ملک کا سب سے نامقبول سیاستدان‘ جس کی ہوسِ اقتدار ضرب المثل ہے۔

دن میں پانچ بار ہم نماز ادا کرتے ہیں۔ قرآن کریم کی تلاوت سے اکتسابِ نور کرتے ہیں۔ اس کتاب میں لکھا ہے: زمین پہ کوئی ذی روح ایسا نہیں‘ جس کا رزق اللہ کے ذمّے نہ ہو۔فرمایا: ایک پتّا بھی اس کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرتا۔عزت اور ذلّت اس کے ہاتھ میں ہے۔

کیا واقعی اللہ پہ ہم ایمان رکھتے ہیں اور ان سب چیزوں پہ‘ چیخ چیخ کر جن کا ہم اعلان کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے: تم ہی غالب رہو گے‘ اگر تم مومن ہو۔

آصف علی زرداری یا ان کے کارندوں نے بینکوں میں درجنوں جعلی کھاتے کھولے۔کیا وہ کسی ایک یا چند آدمیوں کے بس کی بات تھی؟ بینکوں کے عملے کی مدد کے بغیر کیا یہ ممکن تھا؟

ظاہر ہے کہ زرداری اور شریف خاندان کرپشن اور کمیشن کا پیسہ ہنڈی کے ذریعے باہر بھیجتے رہے۔ کیا درجنوں افراد اس میں ملوث نہ ہوں گے؟کہا جاتا ہے 1988ء سے یہ سلسلہ جاری ہے۔سوراخوں کو بند کرنے کی کوشش کیوں نہ کی گئی؟ بتایا جاتا ہے کہ دس ارب ڈالر ہر سال ملک سے باہرچلے جاتے ہیں‘یعنی کم از کم چالیس ‘پچاس ہزار نوکریاں۔ سیاست دان بروئے کار تھے تو وہ بروئے کار تھے‘پھر ایک جنرل اقتدار میں رہا۔ قومی معیشت تباہ کرنے والے سب سے بڑے سبب کا مداوا کرنے کی‘ اس نے تدبیر کیوں نہ کی؟

پولیس‘ ایف آئی اے اور آئی بی نے اگر آنکھیں بند کیے رکھیں تو ایم آئی اور آئی ایس آئی کو کیوں نہ میدان میں اتارا گیا؟ چھ ہزار کڑیل جوانوں کی قربانی دے کر ‘دہشت گردی کا سدِّباب فوج نے کیا۔زخمی معیشت کے اندمال میں اس سے مدد کیوں نہیںلی جاسکتی۔

سب جانتے ہیں کہ مضبوط معیشت کے بغیر کسی ملک کی دفاعی استعداد باقی اور برقرار نہیں رہ سکتی۔احتساب کی گھن گرج کے سبب منی لانڈرنگ میں اضافہ ہوا۔ عمران خان کوادراک نہیں کہ سرمایہ بہت حسّاس ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹوکی طرف سے صنعت کاروں کی داروگیر اور جنرل مشرف کی جانب سے سیاست دانوں پہ عتاب کا نتیجہ یہی نکلا تھا۔

تاریخ سے ہم سبق کیوں نہیں سیکھتے ۔ لمحۂ گزراں میں جینے پہ کیوں مُصر ہیں۔ ہمیںیہ ادراک کب ہوگا قومی اقتصادیات کو سرخروکیے بغیر عام آدمی کا بھلا نہیںہوسکتا… اور حکومت تو بس عام آدمی کی بھلائی کے لئے ہوتی ہے۔

ہم بھارت کے پڑوسی ہیں‘ اوّل دن سے جو ہماری تباہی کے درپے ہے ۔امریکی ہم سے ناراض اور نالاں ہیں۔

افغانستان میں مکمل مطابقت ہم اس سے پیدا نہیں کرسکتے۔اسی طرح بھارت کو علاقے کا تھانیدار بنانے کے منصوبے سے بھی ۔ چین کے ساتھ پائیدار تعلق اور بھارت کی مزاحمت میں ہماری بقا کا راز پوشیدہ ہے۔

یہ محض اتفاق نہیں کہ سبکدوش فوجی افسروں سمیت سینکڑوں امریکی ‘بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک اور قبائلی پٹی میں شورش کی حمایت کے لیے سرگرم ہیں۔خاص طورسے سوشل میڈیا پر ۔حسین حقانی قماش کے لوگ اور سمندر پار سے سیراب ہونے والی این جی اوز امریکی اور بھارتی مؤقف کے حق میں دلائل تراشتی ہیں۔

بے شک احتساب کا عمل جاری رہنا چاہیے ۔ اندھوں کے سوا مجرموں کو کھلی چھوٹ دینے کی حمایت کون کرسکتا ہے۔لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قومی زندگی کے دوسرے تمام پہلو بھلادیئے جائیں۔

بازارِ حصص پیہم زوال کا شکار ہے۔ سرمایہ سمٹ گیا ہے۔کاروباری سرگرمیاں ماند ہیں۔ عام آدمی کی زندگی کم ایسی اجیرن ہوئی ہو گی ‘ جیسی کہ پچھلے چند مہینوں میں۔ مہنگائی کا عفریت مفلسوں اور درماندوں کونگلتا جارہا ہے۔ حکومت ناتجربہ کار لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ اپنی جذباتی آسودگی جن کی سب سے بڑی ترجیح ہے۔معاشرے کا کچرا‘ جس کی تربیت نہیں کی گئی ‘جنہیں کچھ بھی سکھایانہیں گیا۔ وہ ایک سادہ سی بات نہیں سمجھتے کہ قصاص ایک چیز ہے اور جذبٔہ انتقام بالکل دوسری۔

اجتماعی زندگی میں قصاص لازم ہوتا ہے اور انتقام حماقت۔ ایک ذرا سا قرار پیدا ہونے لگتا ہے تو وزیراعظم چلاّنے لگتے ہیں:ایک کو بھی نہیں چھوڑوں گا ‘کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑوں گا۔کوئی انہیں بتانے والا نہیں‘سمجھانے والا نہیں کہ احتساب ان کانہیں دوسروں کا کام ہے‘ نیب اور عدالت کا۔یہ عمل کی چیز ہے خطابت کا موضوع نہیں۔حکمران بچوں کی طرح ہر وقت بولتے نہیں رہا کرتے۔طاقت کا اظہار کلام سے زیادہ سکوت میں ہوتا ہے۔

رفتہ رفتہ بتدریج اپنے سب سول اداروں کو ہم نے برباد کرڈالا‘ قومی ترقی کا جن پہ تمامتر انحصار ہوتا ہے۔ اب بھی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ ادارے تعمیرکرنے کی فکر کیوں لاحق نہیں؟ پنجاب پولیس میں چھوٹی سے بڑی سطح تک ‘تمام تقرّر سفارش کے مرہونِ منّت ہیں تو جرم کا سدِّ باب کیسے ہوگا؟نہیں ہو گا بالکل نہیں ہو گا۔

اطلاع یہ ہے کہ ترکوں کے توسط سے شریف خاندان کو سمندر پار پناہ دینے کی مہم کا پہلے ہی آغاز ہے۔ اگر ایسا ہوا تو حوصلہ پاکر آصف علی زرداری کے سرپرست بھی سرگرم ہوںگے ۔امارات کے حکمران شاید ان کے لیے بروئے کار آئیں۔

جزئیات میں الجھے رہنا احمقوں کا شیوہ ہے۔ دانا وہ ہوتے ہیں جو بڑی تصویر دیکھتے ہیں۔ شاعر منیر نیازی نے کہا تھا : جس قبیلے کے سب لوگ بہادر ہوں‘ تباہی اس کا مقدر ہوتی ہے۔ہم بہادر لوگ!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے