جو چال تم چلے

تین مرتبہ کے وزیراعظم کو سزا سنا دی ہاتھ کیا آیا؟ عدالتوں سے سیاستدانوں کو سزا سنانے سے ان کا ووٹ بینک کم نہیں ہوتا اس میں اضافہ ہوتا ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کرپشن اور مذہب کا چورن فروخت کیا لیکن یہ جماعت دو فوجی مارشل لاوں کو بھگت گئی اور آج بھی سینوں پر مونگ دل رہی ہے ۔نواز شریف کے بعد آصف علی زرداری کو بھی سزا سنا دیں اس جماعت کو پھر سے زندہ کر دیں ۔سیاست سیاستدانوں کا کام ہے ۔سیاستدان عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق سیاست کرتا ہے ۔ عوام سے فیصلہ سازی کا اختیار چھین لیں تو پھر عوام موقع ملتے ہی نفرت اور غصے کا اظہار کر دیتے ہیں ۔

اگر یہ اسٹیبلشمنٹ کا سوچا سمجھا فیصلہ ہے زرداری اور نواز شریف کو کرپشن کے نام پر ہدف بنایا جائے گا تو پھر زرداری کو سزا سنانا ناگزیر ہو گا ۔اگر آصف علی زرداری کو بخش دیا گیا تو پھر تمام فیصلوں کی بدنیتی ثابت ہو جائے گی ۔زرداری کو بخشنے کا دوسرا مطلب یہ ہو گا ان کا مسلہ کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ جمہوریت کے استحکام سے خوفزدہ ہیں ۔

جنرل ایوب نے سیاستدانوں کو ایبڈو کیا تھا اور بہانہ کرپشن کے خاتمہ کا تھا ۔جنرل ایوب کا انجام لاہور کی سڑکوں پر "ایوب خان کے خلاف نعرے تھے ۔ مرد مومن مرد حق ضیا الحق نے ٹوپی پہن کر پوری قوم کو ٹوپی پہنائی تھی ۔جو خفیہ ایجنسیاں لندن فلیٹ کی 40 سال پہلے کی خریداری میں کرپشن تلاش کر لیتی ہیں وہ فوج کے سربراہ سمیت دیگر فوجی قیادت کے جہاز کی تباہی مین ملوث طاقت کا سراغ نہیں لگا سکیں ۔یہ انجام ہوتا ہے جھوٹ ،دھوکہ اور فراڈ کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کا۔

جنرل مشرف غرور اور طاقت کے بے پناہ اختیار کے نشے میں کہتا تھا بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی سیاست ختم ہو چکی ہے ۔آج غیر ملکی ہسپتال میں لرزتے لہجے اور کانپتے ہاتھوں سے کہتا ہے” ایک پراسرار بیماری کا شکار ہوں جو ایک کروڑ لوگوں میں ایک کو ہوتی ہے”

آج جو خدائی لہجے میں اپنے فیصلوں کو ملکی مفاد کا نام دے رہے ہیں کل جنرل محمود "جو ایک دن نواز شریف کے پیٹ میں چھڑی چبو کر استعفی کا حکم دے رہا تھا” اپنے گناہوں کی معافی کیلئے تبلیغی چلے کاٹ رہے ہونگے ۔ اج جو حب الوطنی کا لباس اوڑھ کر ملکی معیشت تباہ کر دی ہے یہ ابتدا ہے ۔ہمارے منہ میں خاک ناقص اور لالچ پر مبنی فیصلوں کا خمیازہ ملک کو بھگتنا پڑھ جائے گا۔

میاں نواز شریف سے بڑا خوش قسمت سیاستدان آج تک پیدا نہیں ہوا ۔ میثاق جمہوریت پر دستخط کئے لیکن پی سی او ججوں کو بحال کرا لیا ۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی غیر آئینی فراغت کے معاملہ میں ان قوتوں کی بھر پور مدد کی جن کا نشانہ آج خود بن گئے ہیں ،لیکن احتساب عدالت سے سزا پا کر مظلوم اور ووٹ کی عزت کے واحد محافظ بھی بن گئے ساتھ میں اسٹیبلشمنٹ کو ظالم بھی ثابت کر دیا ۔

میاں نواز شریف نے میثاق جمہوریت سے بے وفائی کی سزا بھگت لی ہے اور "ڈیل سے انکار کر کے شائد کفارہ بھی ادا کر دیا ہے ۔آصف علی زرداری نے سیاست سیاست کھیلتے ہوئے اور اپنے تئیں نواز شریف سے بدلہ لیتے ہوئے عام انتخابات اور اس سے قبل سینٹ الیکشن میں غیر جمہوری قوتوں کے جو ہاتھ مضبوط کئے تھے ،انہوں نے بھی مزا چکھ لیا ہے ۔لومڑی کسی کی نہیں صرف اپنا پیٹ بھرنے کی ہوتی ہے ۔سیاسی قوتیں ایک نیا سوشل کنٹریکٹ کریں اور سچے دل سے توبہ کریں نہ کوئی مستقبل میں کالا کوٹ پہن کر کسی منتخب وزیراعظم کو نا اہل کرائے گا اور نہ کوئی کسی کے کہنے پر وفاق کی علامت ایوان بالا میں کسی کے ہاتھ مضبوط کرے گا۔

اسٹیبلشمنٹ اپنی بھر پور طاقت اور کامیابیوں کے باوجود جتنی کمزور آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی ۔پنجاب میں مولوی پین دی سری پر تمام سرمایہ کاری برباد ہو چکی ہے ۔پنجاب جو اسٹیبلشمنٹ کی بنیاد ہے وہاں ایک ڈرامے کی حکومت بنوا کر اور نواز شریف کے خلاف کاروائی سے اپنی حمائت بہت حد تک کھو دی ہے ۔قبائلی علاقہ جات اور کے پی کے میں منظور پشین،مولانا فضل الرحمن اور عوام نیشنل پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہو چکا ہے ۔بلوچستان میں محمود اچکزئی کی مخالفت کی وجہ سے پشتون عنصر ماضی کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ مضبوط کرنے کی پوزیشن میں نہیں اور بلوچ پٹی میں اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات اور قوم پرستی الگ سے ایک مسلہ ہے ۔سندھ میں مہاجر ووٹ بینک کا ایک بڑا حصہ موقع کا منتظر ہے اسی طرح اندرون سندھ میں اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات سلگھانے کیلئے صرف ایک چنگاری کی ضرورت ہے ۔

اسٹیبلشمنٹ کی بھر پور کوشش تھی ڈیل ہو جائے ۔ نواز شریف کے مسلسل انکار نے تمام حکومتی اداروں کو جس طرح ننگا کیا ہے وہ بھی طرفہ تماشا ہے ۔حالات جس طرح ہاتھ سے نکل رہے ہیں فیصلہ کرنے والے اور سہولت کار سب نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی تصویر بنے بیٹھے ہیں ۔ان کے ہاتھ میں صرف حکومتی ادارے تھے جنہیں استمال کر کے ڈیل پر مجبور کیا جا سکتا تھا ۔ساری طاقت استمال کر لی ایک دفعہ سزا سنا کر بھی ڈیل پر مجبور نہیں کیا جا سکا اب دوسری مرتبہ سزا سنا کر کیا ڈیل ہو جائے گی ؟ نہیں ممکن ۔نواز شریف کے پاس کھونے کیلئے اب کچھ نہیں ۔وہ اسٹیبلشمنٹ کو کھیل کے اس مرحلہ پر لے آئے ہیں جہاں یا تو ووٹ کو عزت ملے گی یا پھر حالات مسلسل خراب ہوتے جائیں گے ۔

میڈیا کا گلہ گھونٹے سے سوشل میڈیا اس سے بڑا خطرہ بن گیا ہے ۔سوشل میڈیا کا گلہ کاٹیں گے تو لوگ کوئی اور راستہ اختیار کر لیں گے ۔بوری میں سوراخ ہو جائے دانے گرتے رہتے ہیں بوری خالی ہو جاتی ہے ۔اس سے پہلے دیر ہو جائے اور ملک میں اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کے خلاف پہلی مرتبہ کوئی تحریک بغیر کسی ایجنسی کی مدد سے شروع ہو جائے یہ ملک اس کا متحمل کم از کم اب نہیں ہو سکتا ۔عوام معاشی بدحالی سے مضطرب ہیں اور مذہبی عنصر بھی پہلے کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ نہیں رہا ۔اس سے پہلے بہت دیر ہو جائے سیاسی قوتوں سے کوئی معاملہ طے کرنا ہو گا ۔

یہ موقع تمام جمہوری قوتوں کے اتحاد کا ہے ۔حکومتی اداروں کی طرف سے انتقامی کاروائیوں کی بھی ایک حد ہے ۔تمام سیاسی قوتیں مشترکہ حکمت عملی تشکیل دے کر اسٹیبلشمنٹ کو واپسی کا محفوظ راستہ دے سکتی ہیں ۔نا اہل حکومت اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے اور خطہ میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال کے تناظر میں قومی یکجہتی کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے