شیروانی والا جناح یا سوٹ والا قائد؟

کلدیپ نائر لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ قائد اعظم لاہور میں اُن کے کالج میں تقریر کرنے آئے، قائد نے حسب معمول تھری پیس سوٹ پہنا ہوا تھا (قائد کے سوٹ، سگار اور انگریزی رہن سہن، ہمارے بعض مذہبی دانشوروں کو بہت کھلتا ہے، اِن کا بس چلے تو قائد کو بچپن سے ہی شیروانی پہنا دیں)، قائد کی تقریر مختصر اور جامع تھی، مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان امن و آشتی کے لیے پاکستان کا قیام ناگزیر ہے۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو نوجوان کلدیپ نئیر نے ہاتھ اٹھا دیا اور ڈرتے ڈرتے سوال پوچھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد کیا ہوگا، مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان نفرت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کے درپے ہو چکے ہیں؟

قائد اعظم نے بے حد پُراعتماد لہجے میں جواب دیا کہ ’’ہم بہترین دوست ہوں گے۔ کچھ قوموں نے ایک دوسرے کے لاکھوں لوگوں کو قتل کیا ہے، آج اگر کوئی دشمن ہے تو کل دوست ہو سکتا ہے، فرانس اور جرمنی کو ہی دیکھ لیں، کیسی دوستی ہے ان میں؟ یہی تاریخ کا سبق ہے۔‘‘ دوسرا سوال ایک مفروضے پر مبنی تھا، فرض کریں کل کو ایک تیسرا ملک انڈیا پر حملہ کر دیتا ہے تو پاکستان کا ردعمل کیا ہوگا؟ قائد اعظم نے ایک لمحہ توقف کے بغیر فرمایا ’’ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے، ہمارے فوجی آپ کے شانہ بشانہ لڑیں گے اور حملے کو ناکام بنا دیں گے۔

نوجوان یاد رکھو، اپنا اپنا ہے اور غیر غیر۔‘‘ کلدیپ نئیر لکھتے ہیں کہ قائد کے یہ الفاظ وہ کبھی نہیں بھول پائے۔ محمد علی جناح نے ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا جہاں بھارت اور پاکستان کے تعلقات امریکہ اور کینیڈا کی طرح ہوں، دونوں ممالک کے باشندے آسانی کے ساتھ ایک دوسرے کے شہروں میں آ جا سکیں اور ویزے کی شرائط نرم ہوں۔

بانی پاکستان اگر یہ کہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کی فوج ایک دوسرے کے ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ کر سکتی ہیں تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے! 14جولائی 1947کو نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا کہ میں خلوص نیت سے امید کرتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات دوستانہ اور خوشگوار ہوں گے، ہمیں بہت کچھ کرنا ہے۔۔۔ اور سوچنا ہے کہ ہم نہ صرف ایک دوسرے کے لیے بلکہ دنیا بھر کے لیے کیسے سودمند ثابت ہو سکتے ہیں۔ 25اکتوبر 1947کو کراچی میں رائٹرز کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے جناح صاحب نے فرمایا ’’میں نے متعدد مرتبہ کہا ہے کہ اب جبکہ انڈیا کی تقسیم دونوں خطوں کے درمیان باقاعدہ ایک معاہدے کی صورت میں ہو چکی تو ہمیں ماضی کو دفن کرکے آگے بڑھنا ہے، باوجود اس کے کہ جو کچھ ہو چکا ہمیں دوست بن کر رہنا ہوگا۔۔۔۔‘‘ محمد علی جناح کی اِس سوچ کو بھارت اور پاکستان مل کر دفن کر چکے ہیں۔

قائد اعظم کی دوسری بات اُن کی آزادانہ اور روشن خیال فکر ہے۔ محمد علی جناح سر سے پیر تک ایک لبرل اور ترقی پسند انسان تھے، کوئی انہیں ٹوپی پہنائے یا شیروانی، اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ قائد اعظم کی پوری زندگی ایک ایسے شخص کی زندگی ہے جو کہیں سے بھی تنگ نظر یا رجعت پسند تو دور کی بات آج کل کے لبرل دانشوروں سے بھی زیادہ روشن خیال تھا۔ قائد اعظم کی روشن خیالی اور لبرل ازم آخر تھا کیا؟ یہ جاننا ضرور ی ہے۔

قائد اعظم کی تمام تقاریر، انٹرویوز اور بیانات میں ایک بات مشترک ہے کہ وہ پاکستان کو ایک ایسا خطہ بنانا چاہتے تھے جہاں ہر شخص آزادی سے، قانون کے تابع رہ کر، اپنے مذہب، عقیدے اور نظریے کے مطابق زندگی گزار سکے، کسی کے ساتھ رنگ، نسل یا مذہب کی بنیاد پر تعصب نہ برتا جائے، وہ ہندو ہے تو مندر جانے میں آزاد ہو اور عیسائی ہے تو گرجے جانے میں آزاد ہو، اقلیتوں کی جان و مال محفوظ ہوں، کسی کو اُس کے مذہب کی بنیاد پر نشانہ نہ بنایا جائے، بنیادی انسانی حقوق کی گارنٹی ہو، سول لبرٹی ہو، ہمارا معاشرہ ایک انسان دوست معاشرہ ہو۔

قائد کی اپنی تمام زندگی انہی اصولوں کے تابع گزری، پاکستان کا پورا مقدمہ انہوں نے اس اصول پر لڑا کہ مشترکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی بطور اقلیت حقوق کی حفاظت کانگریس ممکن نہیں بنا پائی، چنانچہ نوزائیدہ پاکستان میں سب سے پہلے انہوں نے یہی اصول اپنایا اور واضح کیا کہ پاکستان میں تمام شہری برابر ہوں گے، ذات پات، مذہب، رنگ اور عقیدے سے بالاتر۔

26مارچ 1948کو چٹاکانگ میں انہوں نے ایک خطاب کے دوران کہا ’’بھائی چارہ، برابری اور اخوت…. یہ ہمارے دین، ثقافت اور تہذیب کے بنیادی نکات ہیں، پاکستان کے لیے ہم نے اسی لیے جدوجہد کی کیونکہ برصغیر میں ہمیں یہ انسانی حقوق دینے سے انکار کیا گیا تھا۔‘‘ مذہبی انتہا پسندی اور جنونیت جیسے الفاظ قائد اعظم کی لغت میں کبھی نہیں تھے، ان کا اپنا لائف اسٹائل اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کس قسم کا لبرل پاکستان چاہتے تھے، اپنی وصیت میں محمد علی جناح نے لکھا ہے کہ ’’میں اپنے اثاثوں میں سے دو لاکھ روپے علیحدہ کر رہا ہوں جس پر 6فیصد کی شرح سے ایک ہزار روپے کی آمدن ہوگی جو ہر ماہ میری بیٹی کو تاحیات دی جائے گی۔۔۔۔!‘‘

یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اس آمدن کو انٹرسٹ کہتے ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قائد اعظم کا پاکستان کوئی مذہبی ریاست تھی وہ 19فروری 1948کا قائد کا وہ بیان دیکھ لیں جو آسٹریلوی عوام سے خطاب کے دوران نشر ہوا ’’۔۔۔ہماری غالب اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ہم رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔۔۔۔ مگر کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، پاکستان کوئی تھیوکریسی یا اس سے ملتی جلتی مملکت نہیں ۔۔۔۔‘‘ قائد اعظم کی اِس سوچ کو بھی ہم فراموش کر چکے ہیں۔

قائد اعظم کی تیسری بات اُن کا آئین اور قانون پر غیر متزلزل ایمان تھا۔ انہوں نے پوری زندگی ایک آئین پسند رہنما کے طور پر گزاری، قانون کی مکمل بالادستی پر وہ یقین رکھتے تھے، پاکستان کے لیے اُن کا ویژن بھی یہی تھا کہ وہ ایک فلاحی اور روشن خیال ریاست ہوگی، پارلیمانی جمہوریت ہوگی، عوامی حاکمیت ہوگی، وفاقی نظام ہو گا، تمام ادارے آئین کے تابع ہوں گے۔

28مارچ 1948کو ریڈیو پاکستان، ڈھاکہ سے نشر ہونے والے بیان میں انہوں نے کہا ’’بیرونی تسلط سے نجات کے بعد اب صرف (پاکستان کے) عوام ہی اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ ان کے پاس اس بات کی کامل آزادی ہے کہ وہ آئینی طریقہ کار کے مطابق کوئی بھی حکومت چُن لیں۔ اس کا بہرحال یہ مطلب نہیں کہ کوئی بھی گروہ غیر قانونی ہتھکنڈوں سے عوام کی منتخب کردہ حکومت پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرے۔ حکومت اور اس کی پالیسی عوام کے منتخب نمائندوں کے ووٹوں سے ہی تبدیل کی جا سکتی ہے۔۔۔‘‘ آمروں کی گود میں بیٹھنے والے پڑھے لکھے مفکر قائد کے اِن تمام فرمودات کو پھاڑ کر پھینک چکے ہیں۔

کل پچیس دسمبر تھا، قائد اعظم کا یوم پیدائش، ہمیشہ کی طرح کچھ لوگوں نے اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا کہ ہمیں قائد کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے، دلچسپ بات مگر یہ ہے کہ یہ لوگ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں، ان میں سے جو لبرل ہیں وہ وقت آنے پر کسی آمر کے ترجمان بن بیٹھتے ہیں اور جو انتہا پسند ہیں وہ ملک میں تھیوکریسی قائم کرنا چاہتے ہیں، دونوں طبقات قائد کا نام استعمال کرتے ہیں اور ایسی ڈھٹائی سے کرتے ہیں کہ ماتھے پر پسینہ بھی نہیں آتا۔ آج اگر قائد اعظم زندہ ہوتے تو یہی لوگ قائد کے شاہانہ لائف اسٹائل پر ٹی وی پروگرام کرتے اور جناح صاحب کے ہاتھ میں دبے سگار کے گرد سُرخ دائرہ لگا کر دکھاتے کہ یہ شخص امپورٹڈ سگار پیتا ہے یہ غریبوں کا ہمدرد کیسے ہو سکتا ہے!

آئی ایم سوری جناح صاحب، ہم آپ کی فکر کو دفن کر چکے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے