کیا کوئی دوسرا علی اعجاز بھی ہوسکتاہے؟

علی اعجاز، تم پر اللہ کی رحمتوں کا نزول ہو۔

علی اعجاز میرا فیورٹ اداکار تھا۔میرے ڈراموں میں کام کرنے سے پہلے ہی وہ اداکاری میں ایک بڑا نام تھا۔ لیکن جب اس نے میرے ٹی وی ڈرامہ سیریل ’’خواجہ اینڈ سن‘‘ میں ’’خواجہ صاحب‘‘ کا مرکزی کردار ادا کیا ، تو یہ ڈرامہ ایک کلاسیکی حیثیت اختیار کرگیا۔ علی اعجاز نے ایک بیان میں کہا تھا ’’اس ڈرامے نے مجھے نئی زندگی بخشی‘‘حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس ڈرامے نے مجھ ایسے ایک حقیر لکھنے والے کو وہ عزت دی جو ڈرامہ رائٹنگ میں گنتی کے چند رائٹرز کو حاصل تھی۔

یہ ایک ٹیم ورک تھا اوریہ کامیابی پروڈکشن،ا سکرپٹ اور اداکاری کی مشترکہ مرہون منت تھی، تاہم مجھے جس بات پر فخر ہے اوروہ یہ کہ قراۃ العین حیدر کو یہ ڈرامہ بہت پسند آیا تھا، اور بقول پروین شاکرمجھ سے ایک گھنٹے کی ملاقات کے دوران انہوں نے بیس منٹ میرے ڈرامہ کے بارے میں بات کی۔ علی اعجاز کی اداکاری کی تحسین کے لئےوہ الفاظ نہیں مل رہے جس کا وہ مستحق ہے۔ چنانچہ میں نے ایسی وارفتگی (Devotion)کسی اور میں نہیں دیکھی۔ خواجہ صاحب’’علی اعجاز‘‘ مکالموں کی ادائیگی کے دوران مختلف مقامات پر مختلف انداز میں کھانستے تھے ۔ مگر ہر دفعہ یہ کھانسی مختلف معنی دیتی تھی،کہیں شرمندگی کا، کہیں تمسخر اڑانے کا،اور کہیں کسی اور نکتے کے ابلاغ میں اضافہ کرنے کے لئے ہوتی تھی۔

میں اپنے ہر ڈرامہ سیریل کی ریکارڈنگ کے دوران سیٹ پر موجود رہتا تھا ایک موقع پر مجھے علی اعجاز کی کھانسی موقع کی مناسبت سے موزوں محسوس نہ ہوئی،میں نے کہا ’’شاہ جی آپ کے اس کھنگورے کا مزہ نہیں آیا‘‘ یہ سن کر وہ پریشان ہوگئےاور مجھے ایک کونے میں لے جا کر اپنی مختلف النوع کھانسیاں، کھانس کا دکھائیں، ساتھ ساتھ بولتے جاتے تھے ’’یہ ٹھیک ہے، یہ ٹھیک ہے؟‘‘ بالآخر ایک کھانسی پر میں نے انہیں رکنے کو کہا اور گزارش کی کہ یہ کھانسی کھنگورا، ہنکارا مکرر ارشاد ہو، سو شاہ جی نے ایسے ہی کیا اور میں نےکہا بالکل یہی۔ ایسے موقع پہ یہی آپ کی مخصوص کھانسی تھی جس پر وہ مطمئن ہوگئے۔آج کوئی ہے ایسا جو اپنے ان معاملات میں اتنا حساس ہو ، اور اس قدر ریاضت کرتا ہو۔

ایک مثال اور : میرے دیگر تمام ڈراموں کی طرح ’’شب دیگ‘‘ میں بھی علی اعجاز کا مرکزی کردار تھا۔ میں نے اس میں علی اعجاز کوٹھیٹھ دیہاتی پس منظر کا ایک احساس کمتری میں مبتلا شخص دکھایا تھا جو بی اے کرکے شہر میں ایک دفتر میں ہیڈ کلرک لگ گیا تھا اور خود کو محمد بخش باجوہ کے بجائے ایم بی باجوہ کہلاتا تھا، برگر کھاتا تھا، پاپ میوزک سنتا تھا، اور اس پر الٹا سیدھا ناچتا تھا، غلط سلط انگریزی بولتا تھا۔ ایک دفعہ اسے تیز بخار ہو جاتا ہے اس پر نیم بے ہوشی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور ان لمحوں میں وہ بھول جاتا ہے کہ اس نے شہر میں آ کر کیا روپ دھارا ہوا ہے۔

چنانچہ وہ اسی لاشعورسے اپنے اصل روٹس کی طرف لوٹ جاتا ہے اور اس عالم میں ہیر گانے لگتا ہے اور اسی کیفیت کے زیر اثربے ربط ڈائیلاگ بولتا ہے، او بُھوا، مرغی کو پرے کرو وہ آٹے میں چونچیں مار رہی ہے ، بھوری بھینس کو پٹھے کیوں نہیں ڈال رہے، ہٹ ہٹ اوئے بلی سارا دودھ پی گئی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سین علی اعجاز نے اس شاندار طریقے سے ریکارڈ کروایا کہ سین کے اختتام پر میں علی اعجاز کے پاس گیااور کہا’’شاہ جی آپ نے کمال کردیا ہے، آئی سلیوٹ یو‘‘ مگر میں نے محسوس کیا کہ میری اس تعریف کو انہوں نے سپاٹ چہرے سے سنا۔ مجھے بہت حیرت بلکہ شرمندگی سی محسوس ہوئی۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد شاہ جی میرے پاس آئے اور کہا’’ قاسمی صاحب، آپ کچھ کہہ رہے تھے‘‘۔ تو میں نے کہا ’’میں آپ کی پرفارمنس کی تعریف کر رہا تھا‘‘۔ بولے’’میں اس سین کی کیفیت سے اب باہر آیا ہوں‘‘۔

آج لوگوں نے اداکاری کو بچوں کا کھیل سمجھ لیا ہے۔ اس ڈرامے کے آخری حصے میں ایک طویل سین تھا جس میں علی اعجاز کے مدمقابل ایک اور بڑے اداکار سہیل اصغر تھےاس میں یہ مکالمے تھے، سہیل اصغر اسے سمجھا رہا ہے کہ تم اپنے روٹس کو بھول کر کبھی خوش نہیں رہ سکتے، سہیل بہت مہارت سے اور خوبصورت انداز میںمکالمے بولتا ہےاور اس کے جواب میں علی اعجازنام نہاد دانشوروں کی رومانویت کی دھجیاں اڑاتا اور دیہات کے لوگوں کی بے بسی اور ان کی غیر انسانی، سہولتوں سے محروم مکانیت بیان کرتے کرتے رو پڑتا ہے۔مجھے شب دیگ کایہ سین سب سے زیادہ پسند تھا اور ہے۔

میرے ڈرامے ’’شیدا ٹلی‘‘ میں بھی علی اعجاز کی اداکاری بے مثال تھی مگر افسوس کہ ایک اور ڈرامہ ’’الیکشن الیکشن ‘‘ٹی وی سے دس دس منٹوں کے وقفے سے چلا اور یوں خود میں بھی پورا نہیں دیکھ سکا کیونکہ اس دوران الیکشن کے نتائج آنا شروع ہو جاتے تھے، گزشتہ روز طاہر سرور میر نے جب فون پر اس ڈرامے کا ذکر کیاتو مجھے بہت خوشی ہوئی کہ شکر ہے ایک فن شناس شخص نےتو میرا یہ پلے دیکھا تھا، میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس ڈرامے میں علی اعجاز کی اداکاری پر انہیں کوئی عالمی ایوارڈمل سکتا تھااگر پاکستان اقوام عالم میں ایک تگڑا ملک ہوتا۔ میں نے اس پلے میں علی اعجاز کے کردار کے کئی شیڈز دکھائے تھے، میں نے اسے سجادہ نشین، جاگیردار، سیاست دان، دمے کا مریض، حتیٰ کہ اسے گے (GAY) بھی دکھایا تھا۔ یہ ایک مشکل ترین کردار تھا اور علی اعجاز کے علاوہ شاید ہی کوئی اور اداکار یہ سب شیڈز اس طرح دکھا پاتا کہ ان میں سے ہر شیڈ پوری مہارت کے طفیل ناظرین کے دلوں پر ثبت ہوتا چلا جاتا۔

علی اعجاز کے بارے میں کہنے کی ابھی بے شمار باتیں ہیں مگر میں آخر میں اس کی ایک اور صفت کا ذکرکرنا چاہتا ہوں،جو مجھے اس دور کے اداکاروں میں بھی کم کم نظر آتی تھی اور ان دنوں تو بالکل ناپید ہے۔اس دور میں ایک دن اسکرپٹ کی ریڈنگ کے لئے سب اداکار جمع ہوتے تھے، اگلے دن کیمرہ ریکارڈنگ ہوتی تھی اور پھر کہیں جا کر فائنل ریکارڈنگ کا مرحلہ آتا تھا۔ علی اعجاز اتنا بڑا اداکار ہونے کے باوجود ہر موقع پر سب سے پہلے ٹی وی اسٹیشن پہنچتا تھا اور جونیئرادکاروں کا انتظار کرتا تھا۔

ایک اور کمال کی بات یہ تھی کہ اگر ریکارڈنگ کے دوران اس کے مقابل کوئی جونیئر اداکار ہوتا تو یہ اس کا حوصلہ بڑھاتا تاکہ وہ احساس کمتری کا شکار ہوکر کنفیوژ نہ ہو جائے، ورنہ ہوتا یوں ہے کہ اگر دو اداکار آمنے سامنے ہوں اور ایک اداکار محسوس کرے کہ دوسرے کی پرفارمنس مجھ سے اچھی جا رہی ہے تو چھینک مار دیتا تھا یا اسے کھانسی لگ جاتی تھی تاکہ یہ سین دوبارہ ریکارڈ ہو، مگر شاہ جی بڑے انسان تھے۔

میں کالم کے اختتام پر ’’خواجہ اینڈ سن‘‘ کی لاجواب اور تخلیقی ہدایتکاری پر اپنے عزیز دوست اور اعلیٰ درجے کے شاعر ایوب خاور کو خراج تحسین پیش کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں اور شب دیگ، شیدا ٹلی، اور الیکشن الیکشن کے لئے اپنے محروم دوست اور بہت عمدہ ہدایت کار مشتاق چوہدری کے لئے دعا گو ہوں۔ اور علی اعجاز میرے دوست لیجنڈا اداکار اور اعلیٰ انسان تم پر اللہ کی رحمتوں کا نزول جاری رہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے