انتخابات2018ءکے بعد سندھ میں مذہبی سیاست کا مستقبل!

[pullquote]ابتدائیہ[/pullquote]

عام انتخابات 2018ءکے بعد ملک بالخصوص سندھ میں مذہبی سیاست کے مستقبل کے حوالے سے مختلف حلقوں میں بھر پور بحث چل پڑی ہے۔ ایک بڑےمذہبی طبقے کا دعویٰ ہے کہ سندھ میں ان کی پوزیشن کافی مستحکم ہورہی ہے، جبکہ دوسرے طبقے کا دعویٰ ہے کہ دن بدن سندھ میں مذہبی سیاست کی جگہ کم ہوتی جائے گی۔

[pullquote]پاکستان مذہبی یا سیکولر ریاست؟[/pullquote]

پاکستان کو ایک کٹر مذہبی یا سیکولر ریاست ہونا چاہے اس حوالے سے دو مختلف آرا ہیں۔ مذہبی طبقہ کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کا بنیادی مقصد ہی اسلامی ریاست تھا۔ اوراسی بنیاد پر جدوجہد ہوئی اورانگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جتنی مسلح یا غیر مسلح تحاریک تھیں، وہ سب مذہبی لوگوں کی چلائی ہوئی تحاریک تھیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی نائب امیر ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی کہتے ہیں یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت کے طور پردنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اس کی پہچان اور اس کی انفرادیت بھی یہی اسلامی حمیت اور ایمانی جذبہ ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی نے بھی جس ریاست کی بات کی وہ اسلامی ریاست تھی۔ جس میں قرآن پاک کا نظام ہو، کیونکہ پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر ہوا ہے۔ اور اس کی بقااور ترقی بھی اسی میں مضمر ہے۔

ایک سوال پر ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی کا کہنا ہے کہ اگرسیکولر ریاست ہی مقصود تھی تو پھرمسلم اور ہندو کی بنیاد پر تقسیم کیوں ہوئی ؟ اور قائد اعظم کے دو قومی نظریہ(مسلم ایک الگ قوم اور ہندو ایک الگ قوم)کہاں پر اور کس طرح فٹ کریں گے۔جو لوگ پاکستان کو سیکولر ریاست قرار دینے دیتے ہیں وہ بطور دلیل قائد اعظم محمد جناح کی 11اگست1947ء کے دستورساز اسمبلی سے پہلے خطاب کو پیش کرتے ہیں۔ ہماری نظر میں یہ حقیقتاً اس تقریر میں میثاق مدینہ کی سنت زندہ کی گئی ہے۔ اوراسلام بلا امتیاز رنگ و نسل اورمذہب ہرپرامن شہری کو مکمل تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ اور قائد اعظم نے 11اگست 1947ءکے خطاب میں اسی اصول کو بیان کیا ہے۔ جمعیت علماءپاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل شاہ محمد اویس نورانی کا کہنا ہے کہ تحریک آزادی اور تحریک پاکستان سے اگر مذہب کو الگ کیا جائے تو پھر کیا بچتا ہے؟

دوسری جانب سیکولر طبقہ کا دعویٰ ہے کہ قیام پاکستان کا مقصد مسلم مذہبی ریاست نہیں بلکہ سیکولر ریاست تھا۔ مگر بعد میں اس کو مذہبی رنگ دیا گیا۔ معروف دانشور اور استاد پروفیسر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح نے 11اگست 1947 ءکو دستور ساز اسمبلی کے پہلے خطاب میں واضح پیغام دیا کہ’’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اورریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘‘۔ ایک سیکولر ریاست کے لئے بانی پاکستان کا تصوریہی تھا۔پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما تاج حیدر کا کہنا ہے کہ جب ریاست کو کسی مذہب سے جوڑا جائے تو پھر مساوات قائم کرنا بہت مشکل ہے۔

پاکستان کے قیام کے مقصد سیکولر تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا 11اگست کا خطاب واضح ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے۔ ریاست ہمیشہ سیکولر ہوتی ہے، وہاں سب کا نفع نقصان برابر ہوتاہے۔ عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر شاہی سید کا کہنا ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہئے۔ ریاست میں سب کے مساوی حقوق ہیں۔ باچا خان خان عبدالغفار خان کی جدوجہد بھی اسی بنیاد پر رہی۔

[pullquote]پاکستان میں مذہبی انتخابی سیاست کا ماضی[/pullquote]

پاکستان کو مذہبی یا سیکولر ریاست ہونا چاہئے اس بحث کو ایک طرف رکھ کر اگر پاکستان کی مجموعی سیاست اور بالخصوص انتخابی سیاست کو مد نظر رکھا جائے تو یہ بات ایک حقیقت نظر آتی ہے کہ پاکستان کے عوام نے سخت مذہبی نظریات رکھنے کے باوجود مذہبی قوتوں کو وہ قوت نہیں بخشی جو ملنی چاہئے تھی۔ 71سال میں ایک بار بھی کوئی مذہبی جماعت یا اتحاد تنہاد یا مخلوط مرکزی حکومت نہیں بنا سکا،تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ ہمیشہ مذہبی سیاسی جماعتوں کا کردار بہت ہی اہم رہا ہے۔جن میں جمعیت علماءاسلام، جمعیت علماءپاکستان اورجماعت اسلامی اہم ہیں۔ ان میں سے اول الذکرجماعت کا خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہمیشہ مئوثر سیاسی کردار رہا ہے،جبکہ آخر الذکر دو جماعتوں کی سندھ کے شہری علاقوں میں 1985ءتک عملاً گرفت رہی۔

[pullquote]انتخابات اور مذہبی جماعتیں[/pullquote]

پاکستان کے 1970ءسے 2018 ءتک کے انتخابات کے ریکارڈ کو مدنظر رکھا جائے تو صورتحال کافی حدتک واضح ہوجاتی ہے۔ 18دسمبر1970ءکے اعلامیہ کے مطابق 1970ءکے عام انتخابات میں سندھ کے دارالحکومت کراچی میں قومی اسمبلی کی 3میں سے ایک نشست پر جمعیت علما پاکستان کامیاب رہی،جبکہ حیدرآباد اوردیگر شہروں میں پیپلزپارٹی کا مقابلہ جمعیت علماءپاکستان اور جماعت اسلامی نے کیا۔21مارچ 1977ءکے اعلامیہ کے مطابق 1977ءکے عام انتخابات میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماءپاکستان کی سندھ کے شہری علاقوں میں مکمل گرفت رہی ہے۔ اور نصف درجن نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔حالانکہ 1977ءکے عام انتخابات سب سے زیادہ مشکوک ہیں اوران انتخابات میں مذہبی جماعتیں اس وقت کی حکومتی جماعت پیپلزپارٹی کے خلاف تھیں۔1985ءکی الیکشن رپورٹ کے حصہ سوم کے مطابق 1985ءکے غیرجماعتی عام انتخابات میں بھی جماعت اسلامی اور جمعیت علماءپاکستان کی سندھ کے شہری علاقوں میں مکمل گرفت رہی۔

شاہ محمد اویس نورانی صدیقی کے مطابق شاید یہی وجہ ہے کہ مقتدر قوتوں نے پھر فیصلہ کیا کہ اب ان جماعتوں کی گرفت ختم یا کمزور کرنی ہے۔ اور پھر ایم کیوایم کی شکل میں ایک لسانی گروہ کو سامنے لایا گیا۔ عام انتخابات 1988ء،عام انتخابات1990ء،عام انتخابات1993ءاورعام انتخابات1997ءکی مشترکہ طور پر تیار الیکشنز رپورٹ حصہ دوم 1997ءکے مطابق مذکورہ چاروں انتخابات میں شہری علاقوں میں ماضی کی مضبوط گرفت رکھنے والی جماعتوں جماعت اسلامی اور جمعیت علماءپاکستان کو سندھ کے شہری علاقوں میں اپنا وجود برقرار رکھنا عملًا مشکل ہوا اوران کی جگہ ایم کیوایم نے لے لی۔ جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی کے مطابق ہم نے جان و مال کی قربانی دیکرسندھ کے شہری علاقوں میں اپنے وجود کو زندہ رکھا۔

اور آج ہم میدان میں ہیں مگر جو بندوق اور تعصب کے زور پر آئے تھے، اب وہ قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔الیکشن رپورٹ 2002ءحصہ دوم کے مطابق سندھ کے شہری علاقوں میں مذہبی اتحاد متحدہ مجلس عمل دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آیا اور قومی اسمبلی کی نصف درجن اور صوبائی اسمبلی کی ایک درجن کے قریب نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہا، اس کو بعض حلقوں نے سندھ کے شہری علاقوں میں مذہبی جماعتوں کا نشاتہ ثانیہ بھی قرار دیا ،مگر عام انتخابات 2008ءمیں مذہبی جماعتیں اپنی 2002 ءکی پوزیشن کو برقرار نہ رکھ سکیں۔ اس کی بنیادی وجہ ایم کیوایم کی طاقت کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں کا انتشار بھی ہے۔الیکشن رپورٹ 2008ءجلد دوم کے مطابق ایک بھی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشست مذہبی جماعتوں کے حصے میں نہیں آئی۔

الیکشن رپورٹ 2013ءجلد دوم کے مطابق اسی طرح کی صورتحال عام انتخابات 2013 میں بھی رہی، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ شدید دشواریوں کے باوجود مذہبی جماعتوں نے میدان خالی نہیں چھوڑا۔ امکان تھا کہ عام انتخابات 2018ءمیں مذہبی جماعتیں سندھ کے شہری علاقوں میں اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنے میں کامیاب ہونگی۔ مگر4لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرنے کے باجود صرف سندھ اسمبلی کی 3نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ اس بار اگرچہ جماعت اسلامی، جمعیت علماءپاکستان اور جمعیت علما ءاسلام ایک پلیٹ فارم پر تھیں۔ مگر ان کے لےےتحریک لبیک پاکستان زہر قاتل ثابت ہوئی۔ اور باقی کسر انتخابات کی شفافیت نے نکال دی۔

[pullquote]سندھ میں مذہبی انتخابی سیاست کا مستقبل [/pullquote]

2018ءکے عام انتخابات نہ صرف غیر شفاف رہے،بلکہ عملًا انتخابی عمل سے عوام کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے اور اس کا سب سے زیادہ اثر شہری علاقوں میں پڑا ہے۔ 23دسمبر2018ءکو کراچی کے شہری علاقوں میں 22بلدیاتی نشستوں کےلئےانتخابات ہوئے۔ ضلع ملیر کے دہی علاقوں کے سوا کراچی کے تمام حلقوں میں ووٹ کاسٹنگ شرح 5سے 12تک رہی، جو خوفناک پیغام ہے،جبکہ سندھ کے دہی علاقوں میں 30سے 50 فیصد تک ووٹ کاسٹنگ شرح رہی۔

مذہبی سیاست کو مد نظر رکھا جائے تو مذہبی جماعتیں بھی اب شہری علاقوں سے زیادہ سندھ کے دہی علاقوں پر توجہ مرکوز کےے ہوئے ہیں۔ اور یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں کے مقابلے میں دہی علاقوں میں مذہبی ووٹ بینک میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی کے مطابق سندھ کے دہی علاقوں میں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں تقریباً تمام ہی جماعتیں ڈھیر ہوچکی ہیں اور صرف مذہبی جماعتیں ہی کھڑی ہیں۔ بعض ماہرین سندھ کے دہی علاقوں میں جمعیت علماءاسلام کو مستقبل میں پیپلزپارٹی کے مقابلے کے لئے مسلم لیگ (ف) کا ،متبادل قرار دے رہے ہیں۔اس ضمن میں جمعیت علماءاسلام کے بڑے اجتماعات اورمختلف حلقوں میں پزیرائی کو بطور دلیل پیش کیا جا رہا ہے۔ بلدیاتی انتخابات 2015ءکی الیکشن رپورٹ کے مطالعے سے بھی یہی محسوس ہورہا ہے۔

[pullquote]مذہبی سیاست و ریاست اوررہنماﺅں کا ردعمل [/pullquote]

پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما تاج حیدر کہتے ہیں کہ عالم اسلام طویل عرصے سے دو سوچوں میں تقسیم ہے۔ ایک سوچ ہزار سال پہلے کے طریقے کے مطابق تبدیلی لاکر دنیا میں حکمرانی کرنا چاہتی ہے۔ مگر اب تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ دوسری سوچ مسلم نیشنلیزم ہے ، اس سوچ کے حامل لوگ جدید تعلیم اور طریقے سے جدید معاشرے کو ایک کے ساتھ چلانا چاہتی ہے۔ یہ دونوں سوچیں نیک نیتی پر مبنی ہیں۔ مذہبی سیاست کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جب تک مکمل مذہبی انداز میں انہیں آزادی نہیں ملتی ہے ، وہ آزادی کی تحریکوں میں حصہ نہیں لیں گے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آزادی کی تحاریک میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔

مسلم نیشنلزم سے تعلق رکھنے والوںکا کہنا ہے کہ نہیں، یہ جو نظام ہے اس کے اندر رہتے ہوئے ہمیں آزادی کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ تاج حیدر کے مطابق آج قدیم طریقے کے مطابق دور جدید میں تبدیلی اورچیلنجز کا مقابلہ بہت مشکل ہے۔ ہمیں عقیدہ توحید کی روشنی لیتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ مکمل انسانی آزادی و خود مختاری، بھائی چارہ اور مساوات کا نظام قائم کرنا ہوگا۔ معاشی مساوات کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے۔ تاج حیدر کے مطابق ان کے والد محترم کا یہ خیال ہے کہ ایسا معاشی نظام جو غریب اور امیر کے درمیان فرق میں مزید تفریق پیدا کرے وہ اسلامی نظام نہیں ہوسکتا ہے۔ اسلامی معاشی نظام وہی ہو سکتا ہے جو غریب اور امیر کے درمیان فرق کو کم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرے۔

عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر سابق سینیٹر شاہی سید کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر مذہب کو سیاست میں ملوث نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ سیاست میں بہت ساری خامیاں ہیں اور جمہوری نظام میں سب کی حیثیت برابر ہے اور سب کا ووٹ ایک ہی ہے۔ جب کہ اسلامی نظام میں صاحب الرائے لوگوں کے رائے کو ترجیح دی جاتی ہے، جو لوگ خیراتی کام کرتے ہیں یا لوگوں کے اصلاح کےلئے کام کرتے ہیں ان لوگوں کو سیاست نہیں کرنی چاہیے۔

اس سے ان کے کام میں میں رکاوٹ پیدا ہو گی، یہ عمل ان کے لیے مشکلات کا باعث بنے گا۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ ریاست کو یقیناً سیکولر ہونا چاہیے اور سیکولرریاست میں مساوات ہوتا ہے اور بحیثیت انسان سب کے ساتھ یکساں سلوک ہوناچاہیے ۔ مذہبی ہو یا سیکولر انتہا پسندی ان دونوں کا انجام بہت ہی برا ہوتا ہے۔ شاہی سید کے مطابق جمہوری نظام کے تحت ایک شہری کی حیثیت سے مذہبی لوگوں کو بھی ووٹ ڈالنے اور انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت مکمل اجازت ہو، مگر مذہب کی بنیاد پر صرف سیاست کرکے آگے بڑھنا بہت مشکل ہوگا۔

جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی کا کہنا ہے کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ مذہبی ریاست یا نظام سے مساوات قائم نہیں ہوگا۔مدینہ کی ریاست میں مساوات ہی قائم تھا اور اسی طرح خلفائے راشدین نے اپنے ادوار میں مساوات قائم کرکے دکھایا ہے۔ اسلام جبر قائم کرتاہے اور نہ اس کی اجازت دیتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ مذہبی جماعتوں کے خلاف ایک مخصوص پروپیگنڈے کے ذریعے کام کیا جاتا ہے اورعوام میں منفی تاثرپیدا کیا جاتاہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عوامی سطح پر سخت مذہبی رجحانات کے باوجود ہمیں ووٹ کی حد تک وہ مدد نہیں ملتی ہے جو ملنی چاہیے۔ ہمیں اس حقیقت کو ماننا چاہیے کہ مذہبی جماعتوں کو بھی جدید طریقے اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو پیش کرنا ہوگا۔ تاکہ بہتر سے بہتر انداز میں کامیابی حاصل کی جاسکے۔ ایک سوال پر انہوں کہا کہ تحریک پاکستان ہو یا دیگر اسلامی ممالک کی آزادی کی تحاریک ،ان تمام میں سب سے زیادہ کردار مذہبی لوگوں کا ہی رہا ہے۔ اور یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ مذہبی جماعتیں سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کاربنتی ہیں۔ اس وقت ملک کی تین جماعتیں ہیں، ان کو ہی مدنظر رکھیں کیا پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور پاکستان تحریک انصاف پریہ الزام نہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی پیداوارہیں۔

جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل شاہ اویس نورانی صدیقی کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے۔ اور مذہب کی بنیاد پر ہی قائم ہوئی ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا ’لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ‘ اس کا بنیادی نعرہ تھا اور یہی ہمارا مقصد رہا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اسی لےے قربانیاں دی تھیں اور پاکستان کے بقا و سلامتی اسی میں ہے۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ترقی سیکولر یا لا دین ریاست کی شکل میں ہو گی تو ایسا ممکن نہیں ہے۔

ہمارے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے مذہب ہی اصل بنیادی ہے۔ ورنہ ہمارے اندر اتنی زیادہ تقسیم ہے کہ ہم اپنے اتحاد کو برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔ ریاست سے مذہب کو الگ کریں گے تو ہمارے لیے مشکلات پیدا ہوںگی۔ ہمارے بزرگوں نے اس بات کو تحریک آزادی کے وقت بھی محسوس کیا اور آزادی کے بعد دستور سازی کے وقت بھی محسوس کیا گیا اور دستورمیں اس کی مکمل وضاحت موجود ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے