تایا جان کہاں بیٹھے ہیں؟

سمجھ میں نہیں آتا کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کیسے چلے گی؟ کب تک چلے گی؟ اور کیوں چلے گی؟ آج کی تازہ خبر ہے کہ جناب آصف زرداری کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یوں تو جناب زرداری نے بھی اپنے مخالفین کو ای سی ایل چکھوائی ہے ‘لیکن یہ باری باری کا کھیل ہے۔ ان دنوں سیاست کا نیا باب کھلا ہے۔ ظاہر ہے کہ باقی ساری حکومتیں نہایت ”ایمانداری‘‘ سے اپنی باری لیتی رہی ہیں۔

وہ جو اناڑیوں کا جمہوری دور تھا‘ اسے ابھی تک ہمارے درجہ بدرجہ حکمرانوں کو پہلے حکومت کرنا سکھائی۔اس کے بعد مخالفین کو اپنے جال میں رکھنا سیکھا اوراگر وہ ملک کے اندر رہ کر مخالفانہ بیانات دینا شروع کر یں تو انہیںبیرون ملک جانے سے منع کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی پولیس اور بے انتہا ایجنسیوں کے کارکنان ‘اس ایک بندے کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور بے کار بیٹھنے سے اکتائے ہوئے خفیہ ایجنسیوں کے کارندے نکل کھڑے ہوجاتے اور سارے دن کی کارکردگی اپنے افسروں کی خدمت میں پیش کرتے اور ان سب کا افسرا علیٰ‘ حکمران کے حضور حاضری دے کر بتاتا کہ ”حضور! آپ کے خلاف بڑی سازش ہو رہی ہے‘‘۔ حکمران جو کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھا ہوتا ہے‘ ایک دم جھنجھلاں کے متوجہ ہوتا ۔

سامنے پڑے کاغذ میز پر رکھ دیتا اور انتہائی سرگوشی کے عالم میں ‘ حکمران کارروائی کی تفصیل سننے لگتا ۔ ایسا کرتے ہوئے ٹیلی فون کا تاراتار دیاجاتا۔ کھڑکیاں مقفل کر دی جاتیں۔ گیٹ پر چار پہرے دار کھڑے کر دئیے جاتے۔آپ سوچیں گے پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں سچ مچ کی کوئی خبر اپنے ساتھ لائی ہوں گی‘ لیکن پاکستان میں یہ رواج نہیں پایا جاتا۔ یہاں کی خفیہ ایجنسیاں ‘ حکمران کے حقیقی مخالفین کے قریب نہیں جاتیں۔ ایسا کرنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے‘ کیونکہ افسراعلیٰ کے اپنے تعاقب میں بھی‘ اس کے بہت سے ماتحت لگے ہوتے ہیں اور اس کی دن بھر کی سرگرمیوں کی ڈائری رپورٹ‘ حکمران کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔ افسراعلیٰ کے رخصت ہوتے ہی حکمران ایک دم ”کچیچیاں ‘‘ لیتے ہوئے ہڑبڑاتا ہے یہ کیسی خفیہ ایجنسی ہے؟ جس کواعلیٰ ترین تنخواہ اور مراعات دی جاتی ہیں‘ پھر بھی یہ ”حرام خوری‘‘ سے باز نہیں آتے۔اس افسر نے جو کچھ حکمران کو بتایا ہوتا ہے‘اس کے کارندے پہلے ہی آکر خبر کر دیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں کیا کام کیا جائے؟

جب سے ہمارے ملک میں چغل خوری کا ”فن‘‘ عام ہوا ہے ‘اس کی سب سے زیادہ پریشانی حکمران کو ہوتی ہے۔اس نے جتنے بھی کارندے چھوڑے ہوتے ہیں ‘ انہیں درجہ بدرجہ تنخواہیں‘ سہولتیں اور آسائشیں مہیا کی جاتی ہیں‘اسی حساب سے مراعات بھی دی جاتی ہیں۔ اگر میں را زکی بات بتائوں تو آپ کسی جاسوس کو دیکھ کر خود ہی ہنسنا شروع نہ کر دیں۔ وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک نئی قسم کی چغلی‘ اپنے افسر کو سنائے گا اور جاسوس یہ سوچ کر چلتے چلتے درخت کے پیچھے کھڑے ہو کر خو ب ہنستا ہے اور اپنے آپ سے کہتا ہے ”یہ کیسے لوگ ہیں؟ جو مجھ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ میں سب جانتا ہوں کہ میرا فسر چغل خوری کے فن میں خاک نہیں جانتا‘‘۔ جب میرا افسر‘ حکمران کی خدمت میں پیش ہو کر بتاتا ہے تو افسر اپنی پسلی پر گدگدی کر کے خوب ہنستا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اپنی ہی پسلی پر گدگدی کر کے ہنسی نہیں آتی‘ لیکن پیشہ ور لوگوں کو اپنے فن میں زبردست مہارت ہوتی ہے۔ اگر ان کے پاس یہ مہارت نہ ہو تو حکمران کیسے یقین کرے؟

کہ ہم روز حکمران کو خوف زدہ کرنے کے لئے کیسی کیسی خبریں گھڑتے ہیں؟ یہاں میں آپ کوحکمرانی کے چند واقعات سناتا ہوں۔ ہمارے ملک کے پہلے حکمران آئے تو انہیں اپنے آپ پر بہت اعتماد ہوتا تھا۔انہیں اپنی افواج اور خفیہ ایجنسیوں کے کارکنوں کی فوج ظفر موج پر زبردست یقین ہوتا تھا۔ابتدا میں ایجنسیوں کے عملے میں ایماندار اوراپنے پیشے سے وفادار کارندے ہوا کرتے تھے ۔ جیسے جیسے حکمران کے ذاتی ہمدرد‘ حاکم کے زیادہ قریب ہوتے اور پرانے وفادار جاسوسوں پر سے حکمران کا اعتماد اٹھتا جاتا ہے۔ اس کے نئے کارندے آہستہ آہستہ حکمران کا مزاج بھانپ لیتے ہیں۔ وہ آسانی سے حکمران کی پسندیدہ خبریں اور افواہیں تیار کرنے کی مہارت حاصل کر لیتے ہیں۔

” اعتماد کے اس ماحول میں‘‘ سب اپنا اپنا کام اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں ۔ پرانے حکمران بھی وقت کے ساتھ ساتھ اپنے خلاف ہونے والی سازشیں سمجھ لیتے ہیں۔نئے جاسوسوں کو اپنے نئے کام کی مہارت پر عبور کرنے کے بعد ‘ان کی نوکری پختہ ہو جاتی ہے اور اپنی نئی ڈیوٹی میں نئے فنون سیکھ کر‘ پرانے ایمانداروں کو حاکم سے دور کرتا رہتا ہے اور نئے جاسوس‘ حکمران کو ایک سے ایک بڑھ کر من گھڑت کہانیاں سناتے ہیں اور حکمران نئی خبروں میں مست ہو کر اپنے آپ کو انتہائی محفوظ اور خطروں سے آزاد سمجھنے لگتا ہے۔

یہی وقت ہوتا ہے جب حکمران افواہوں اور تجربہ کار جاسوسوں کے نرغے میں گھرنے کے بعد‘ ہر وقت یہی سوچتا ہے کہ ”میرے خلاف کیا سازشیں ہو رہی ہیں؟‘‘۔ ہر سازش کی کہانی سن کر حکمران کا خود پر اعتماد گھٹتا جاتا ہے اور بد اعتمادی بڑھتی جاتی ہے۔ ایک روز اچانک اپنے وفادار جاسوس کے منہ سے ایک خبرسنتا ہے ”مسٹر افسراعلیٰ‘ تمہارے محکمے پر تو مجھے اتنا اعتماد ہو گیا تھا کہ میں نے خود کو محفوظ تصور کر لیا تھا‘ لیکن آپ کیسے آدمی ہیں؟ کہ مجھے شروع سے آخر تک جھوٹی خبریں سناتے رہے‘‘۔

افسراعلیٰ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اوراس نے کہا ” حضور والا! میں تو ایک ادنیٰ سا خادم ہوں۔ آپ کے اعتماد کو مجروح کرنے والے افسران اعلیٰ ہیں۔ آپ کے تخت وتاج میں دیمک لگ چکی ہے۔ آپ اپنی کرسی کی لکڑی میں لگی ہوئی دیمک کو دیکھ نہیں پاتے اور جب آپ کی مسند کھڑکھڑانے لگتی ہے تو آپ کا سب کچھ جا چکا ہوتا ہے‘‘۔

اس سلسلے کی ایک تازہ خبر یہ ہے کہ سابق حکمران آصف زرداری کو حکم ملتا ہے کہ آپ کو ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے۔ مناسب ہو گا کہ آپ بیرونی پرواز میں جانے والے جہاز میں سفر نہ کریں۔یہ سن کرسابق حکمران کے دانت سائز سے بڑے ہو جاتے ہیں اور وہ غمزدہ انداز میںکہتا ہے” یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے‘‘۔

ابھی تھوڑا وقت بھی نہیں گزرا کہ شہباز شریف کے کان میں آصف زرداری نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ ”تمہارے برخوردار ‘ حمزہ شہباز کو بھی جہاز سے اتار لیا گیا تھا ‘‘۔

”وہ کہاں جا رہا تھا؟‘‘

” لندن‘‘۔

آصف زرداری نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کے کہا ” تم سے تو تمہارا بڑا بھائی اچھا رہا۔ کیسی پھرتی سے نکل گیا؟‘‘
” میرے بیٹے کے تایا جان کی اتنی تعریف بھی مت کرو‘‘۔

شہباز شریف نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا ” تایا جان اس وقت کہاں بیٹھے ہیں؟‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے