ایک گنہگار جوڑے کی کہانی !

عاشق عظیم نام اور لقب سیہ کار تھا۔ موصوف بازار حکیماں بھاٹی گیٹ کے ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئے۔

پیدائش کے وقت سیہ کار کی ذہنی عمر انیس بیس برس تھی۔ اس کا ثبوت اس کی ولادت کے موقع پر رونما ہونے والے اس محیرالعقول واقعہ سے بھی ملتا ہے جس کے مطابق گھروالوں نے شگون کے طور پر نرس کے ہاتھ میں مختلف علوم سے متعلق کتابیں تھما دیں کہ دیکھیں بچہ کس کتاب پر ہاتھ دھرتا ہے تاکہ آئندہ زندگی میں اس کی پرورش اس ڈھب پر کی جائے کہ وہ متعلقہ مضمون میں مہارت حاصل کر سکے۔ عاشق عظیم نے ریاضی، فلسفہ ادب، سائنس اور دیگر علوم سے متعلق کتابوں سے صرف نظر کرکے اپنا ہاتھ نرس کے ہاتھ پر رکھ دیا اس پر عاشق عظیم کے والد ماجد جناب مشعوق عظیم منفعل نے یہ شگون نکالا کہ ان کا بیٹا بڑا ہو کر دکھی انسانیت کی خدمت کرے گا۔

اور جناب مشعوق عظیم منفعل کا یہ اندازہ درست ثابت ہوا کیونکہ عاشق عظیم سیہ کار بڑا ہو کر واقعی دکھی انسانیت کی خدمت میں مشغول ہو گیا۔ اس کے سامنے دکھی انسانیت کی خدمت کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ سرے سے انسانوں کی پیدائش کا سلسلہ روک دیا جائے چنانچہ وہ اس مشن میں مکمل طور پر نہیں تو اپنے دائرہ اثر میں بہرحال پوری طرح کامیاب ہوا۔

اس ضمن میں اسے جہاں کہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا وہ اس سے شادی کر لیتا۔ یوں تو اس کی بیویوں کی تعداد دونوں ہاتھوں کی انگلیوں پر نہیں گنی جاسکتی۔ لیکن اس کے دل میں چونکہ ملکی قوانین خصوصاً عائلی قوانین کا بہت بڑا احترام تھا اس لئے وہ ہمیشہ ایک وقت میں صرف ایک بیوی کا شوہر رہا۔ وہ مشرقی عورت کی مظلومیت پر بہت کڑھتا تھا اور اس کے نزدیک طلاق ایک انتہائی غیر پسندیدہ حرکت تھی چنانچہ اس نے اپنی کسی بیوی کو خود کبھی طلاق نہیں دی۔ البتہ اگر وہ طلاق کا مطالبہ کرتی تو وہ یہ مطالبہ خندہ پیشانی سے قبول کرتا۔ اسے اس خداترسی اور نیک نیتی کا پھل قدرت کی طرف سے یہ ملتا کہ وہ نان نفقہ کے اخراجات سے بری الذمہ ہو جاتا۔

سیہ کار کے متعلق بہت سی روایتیں عوام میں مشہور ہے جس میں سے کئی ایک کی صداقت کو چیلنج کیا جاتا ہے مثلاً اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ایک وجیہہ نوجوان تھا جدھر سے گزرتا کشتوں کے پشتے لگ جاتے حالانکہ جن لوگوں نے اسے عالم شباب میں دیکھا ہے وہ اس کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ایک انتہائی معمولی شکل و صورت کا انسان تھا، گندابھی بہت تھا چنانچہ کبھی منہ تک نہیں دھوتا تھا۔ اس کے ہم عصررفقا کا بیان ہے کہ ا تنی معمولی شکل و صورت رکھنے کے باوجود اس کی کامیابی کے صرف دو راز تھے۔ ایک تو یہ کہ وہ عاشقی میں انا وغیرہ کا قائل نہیں تھا۔ فوراً گوڈوں کو ہاتھ لگا دیتا تھا اور دوسرے مستقل مزاج تھا لہٰذا رفتہ رفتہ گٹوں گوڈوں میں بیٹھ جاتا تھا۔

ان دو وجوہ کے علاوہ اس کے بعض ہم عصر اس کی کامیابی کی ایک اور وجہ بھی بیان کرتے ہیں بلکہ اسے واحد وجہ گردانتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ کامیابی کے اس سبب کو باقاعدہ ایک تھیوری کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور وہ تھیوری یہ ہے کہ اس سارے کھیل میں مرد کی دانائی اس کے اتنے کام نہیں آتی جتنی عورت کی نادانی مرد کے کام آتی ہے۔ !

عاشق عظیم سیہ کار کے متعلق روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ عمر کے ایک حصے میں اس نے تمام گناہوں سے توبہ کرلی اور مکروہاتِ دنیا سے منہ موڑ کر گوشہ نشین ہوگیا۔ اس دوران اس نے اپنی آخرت سنوارنے کے لئے ایک نیک نام خاتون آنسہ راحت افروز دریا دل سے نکاح بھی کر لیا۔ راحت افروز دریا دل بھی ایک عرصے سے تائب ہو چکی تھی اور اب سمٹ کر جوئے کم آب بن گئی تھی۔

اس جوئے کم آب کے بارے میں ایک بڈھا راوی بیان کرتا ہے کہ شادی کے بعد اسی عفیفہ نے گھر سے نکلنا بند کر دیا تھا اور ارادت مند اس سے ملاقات کے لئے اب اس کے گھر آتے تھے۔ اس وقت عاشق عظیم سودا سلف خریدنے کے لئے عموماً گھر سے باہر ہوتا اور اگر وہ اتفاقاً گھر پر ہوتا تو راحت افروز دریا دل اسے سودا سلف خریدنے کے لئے باہر بھیج دیتی تھی۔ راوی کا یہ بیان محققین میں کسی نے چیلنج نہیں کیا کیونکہ ایک روایت کے مطابق یہ راوی خود بھی آنسہ راحت افروز دریا دل کے خصوصی ارادت مندوں میںسے تھا۔

عاشق عظیم کی وفات ایک غلط فہمی کی وجہ سے ہوئی اس کے ایک ثقہ ہم عصر کے مطابق آخر عمر میں عاشق عظیم سیہ کار کا (جواب سیہ کار نہیں تھا مگر ابھی تک اسی نام سے مشہور تھا) کے قویٰ بالکل مضمحل ہو گئے تھے خصوصاً اس کا حافظہ انتہائی کمزور ہو گیا تھا۔ چنانچہ اس حافظے کی کمزوری ہی کی وجہ سے وہ ایک روز اپنے گھر میں داخل ہونے کی بجائے روزِ روشن میں اپنے برابر کے گھر میں داخل ہو گیا، قریباً ایک گھنٹے بعد اپنی غلطی کا احساس ہونے پر جب وہ چوری چھپے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسی جیسے کمزور حافظے کے مالک بعض اہلِ محلہ کی نظر اس پر پڑ گئی اور انہوں نے اسے زدوکوب کرنا شروع کر دیا۔

ایک شقی القلب نے تو اس زور کا گھونسہ رسید کیا کہ عاشق عظیم سیہ کار اس کی تاب نہ لاسکا اور اس نے جان فوری طور پر جان آفریں کے سپرد کر دی۔ راوی بیان کرتا ہے کہ اس پر اہل محلہ خوفزدہ ہوگئے اور اسے وہیں چھوڑ کر تتر بتر ہو گئے۔ راوی کے مطابق عاشق عظیم سیہ کار کی نعش کافی دیر تک گلی میں پڑی رہی حتیٰ کہ فضا میں چیلیں وغیرہ منڈلانے لگیں، تاہم وہ نیچے نہیں آئیں بس فضا میں منڈلاتی رہیں۔

عاشق عظیم سیہ کار کی وفات کے چند روز بعد اس کی زوجہ راحت افروز دریا دل بھی چل بسی۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ عاشق عظیم کی موت ایک شقی القلب اہل محلہ کے ہاتھوں ہوئی تھی اور راحت افروز کی موت بھی اپنے ایک شقی القلب ارادت مند کے ہاتھوں واقع ہوئی۔ دونوں کی وصیت کے مطابق دونوں کو ایک دوسرے کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے