سایہ اور سرگوشی

مقامی منتخب عہدیداروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر طیب اردوان نے کہا ”2013ء کے ہنگاموں میں حکومت کے خلاف اکسانے اور فنڈنگ کرنے والا دہشت گرد ‘ ہنگرین جیو سارو تھا۔اس نے یہ ٹاسک جارج سارو کو سونپا‘جس نے قوم کو تقسیم کیا۔ہنگرین بہت بڑا سرمایہ دار ہے اور اپنے سرمائے کو اس کام میں صرف کر رہا ہے‘‘۔ اس سے قبل طیب اردوان دہشت گردوں کے خزانچی کے طور پر عثمان کوالا‘ کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

عثمان کوالا‘ ترکی کے ایک مشہور سماجی کارکن کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ ایک سال قبل انہیں گرفتار کیا گیا۔ترک انتظامیہ اور میڈیا انہیں 2013ء کے ہنگاموں کے مرکزی کرداروں میں سے ایک کے طور پر‘پیش کرتا رہا ہے۔حالیہ دنوں میں جارج سورو نے ایک سماجی تنظیم کی بنیاد رکھی اور اسے باقاعدہ وقت دینے لگامگر اردوان پر حملوں کے بعد ‘اس کے سر پر بھی خوف کے بادل چھائے رہے ۔اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ترکی چھوڑ دے گا‘کیونکہ ایسا نہ کرنے سے اس کی جان کو خطرہ ہو گا اوروہ یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔

چند روز قبل‘ ہلکان الیٹی‘ جو اس سماجی تنظیم کے بانیوں میں سے تھا ‘گرفتار کر لیا گیا۔”او ایس ایف‘‘ نے وضاحتی بیان جاری کیا کہ ایسا عمل مستقبل میں اس تنظیم کے دیگر شراکت داروں کے ساتھ بھی دہرایا جاسکتا ہے‘ جبکہ بغیر ثبوت کسی سماجی تنظیم کے خلاف کارروائی کرنا غیر قانونی عمل ہے۔حکومت کا حامی میڈیا پہلے ہی ”او ایس ایف‘‘ تنظیم کو شیطانی تنظیم قرار دیتا رہااور یہ جواز پیش کرتا رہا کہ سورونے یہ تنظیم امریکہ اور اسرائیل کی مالی معاونت سے ترکی کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے بنا ئی ۔ ایسے الزامات عمومی طور پر الیکشن سے پہلے اپنے گراف کو بڑھانے کے لئے لگائے جاتے ہیں۔

الزامات یہ بھی ہیں کہ یہودی لابی گیزی پارک میں حکومت مخالف جلسے کرانے میں سرگرم رہی۔اس وقت طیب اردوان کی شہرت عروج پر تھی۔تاثریہ بھی دیا جاتا ہے کہ ان جلسوں میں خطیر رقم استعمال کرکے یورپ سے لوگ شامل کئے گئے۔ترکی میں ایسی بازگشت اورافواہیں‘ اردوان کو الیکشن کے دوران فائدہ پہنچاتی رہی ہیں۔اس کی وجہ شہرت میں ان افواہوں کا ہاتھ بھی رہا‘مگر ایسی باتیں ترک صدر کی عالمی سطح پر ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہیںاور ترک معیشت پر بھی گہرا اثر چھوڑ سکتی ہیں۔

تیس سال قبل سابق ترک وزیراعظم نیکمٹن اربکان‘ یہودی ملازمین کے حوالے سے وجہ شہرت بنا رہا۔یہاں تک کہ
جب اس کی موت واقع ہوئی امریکی تجزیہ نگاروں نے اپنے تجزیے میں کہا

ـ” اس تاثر کو پھیلا کر لطف اندوز ہوتاتھا کہ یہودی‘ مغرب کو چلا رہے ہیں‘‘۔ اربکان نے جب 2001ء میں اپنی ”اربکان اسلامی پارٹی ‘‘ توڑ کر نئی ”کنزرویٹو ڈیموکریٹک پارٹی ‘‘ کی بنیاد رکھی تو اس وقت طیب اردوان نے کہا تھا کہ” اربکان نے مسلمانیت والا قمیض اتار پھینکا ہے‘‘۔اپنی تقاریر میں اربکان پر کڑی تنقید کرتے ر ہے ۔ اردوان اس عمل کو جرم قرار دیتا رہا اور بدلے میں مقبولیت کی بلندیاں سر کرتا رہا۔غیر ملکی مبصرین کے مطابق یہودیوں اور امریکیوں کے خلاف ہرزہ سرائی اور مذہبی تعصب اردوان کے لیے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔مغربی میڈیا ترک مفادات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے مذہبی انتہا پسندی کا سایہ اور سرگوشی سے تشبیہ دیتا رہاہے۔

مبصرین کے مطابق 2013ء میں جب حکومت کے خلاف ہونے والے گیزی پارک احتجاج کو اردوانی حکومت مذہبی انتہا پسندی ‘یہودی لابی اور امریکہ کی” شیطانی پالیسی ‘‘جیسے الزام لگاتی رہی اوراس وقت ترکی کا شمار انتہا پسند ممالک کی لسٹ میں 102میں سے 17 نمبر پر ہونے لگا‘جو ایران کے بعد بڑا نمبر تھا۔یہ نئی بات نہ تھی۔ترکی کے عوام اسے معمول کی بات سمجھتے رہے جبکہ اردوان انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کرتا رہا۔اس امر میں ترکش حکومتی طرفدار چینل ان کا ساتھ دیتے رہے۔

مغربی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اردوان کو مذہبی انتہا پسندی سے نکل کر معاشی معاملات پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ ایسے عمل سے سیاسی شہرت تو پا لیں گے مگر ترکی دن بدن تنزلی کی جانب گامزن رہے گا۔غیرملکی سرمایہ کاری کم ہوگی اوربینکوں میں پڑی غیرملکی رقوم روز بروزکم ہونا شروع ہو جائیں گی‘ جو ایک معاشی بحران کی جانب اشارہ ہے۔ الزام تراشی کی سیاست کو فروغ دینے کے بجائے‘ اردوان کو معاشی حالات پر توجہ دینا چاہئے ورنہ اس کے نتائج گمبھیرہو سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے