اپالو 8 کے خلاباز کہتے ہیں ’انسان کو مریخ پر جانے کی کوئی ضرورت نہیں‘

زمین کے مدار سے باہر جانے والے پہلے خلائی جہاز اپولو 8 کے لونر ماڈیول یعنی چاند کا مشاہدہ کرنے والی یونٹ کے پائلٹ بِل اینڈرز کا کہنا ہے کہ مریخ پر لوگوں کو بھیجنا ایک نامعقول بات ہے۔

فی الحال امریکہ کا خلائی تحقیقی ادارہ ’ناسا‘ انسانوں کو چاند پر بھیجنے کا نیا منصوبے بنا رہا ہے۔ امریکی خلائی ادارہ چاہتا ہے کہ مستقبل میں مریخ پر انسانوں کو اتارنے کے لیے درکار صلاحیت اور ٹیکنالوجی تیار کی جا سکے۔ البتہ اینڈرز کی بات پر ناسا سے فی الحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

85 سالہ اینڈرز کا کہنا ہے کہ وہ خلا میں روبوٹ یا ریموٹ کے ذریعے چلنے والے خلائی پروگرامز کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ ان پر کم لاگت آتی ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ انسانوں کے ساتھ مہنگے مشنز بھیجنے کا عمل عوام میں بھی مقبول نہیں۔

’اس کی ضرورت کیا ہے؟ مریخ پہنچنے کے لیے ہم پر کون دباؤ ڈال رہا ہے؟‘

انھوں نے مزید کہا ’مجھے نہیں لگتا کہ عوام کو اس میں کوئی خاص دلچسپی ہے۔‘

اسی دوران روبوٹک پروبز مریخ کی سطح پر گھوم رہے ہیں۔ پچھلے مہینے مریخ کے اندرونی ڈھانچے کی چھان بین کرنے والا ’ان سائٹ لینڈر‘ کامیابی سے مریخ کی سطح پر اترا۔

دسمبر سنہ 1968 میں چاند کے گرد 10 چکر لگانے سے پہلے اینڈرز اور ان کے ساتھی فرینک بورمین اور جِم لوویل نے ’سیٹرن 5‘ نامی راکٹ میں کیپ کینیویرال، فلوریڈا سے اڑان بھری۔

زمین پر واپس اترنے سے پہلے اپولو 8 کے عملے نے چاند کے مدار میں 20 گھنٹے گزارے۔

27 دسمبر کو وہ لینڈنگ پوائنٹ سے 4500 میٹر دور بحرالکاہل میں جا گرے۔ انھیں یو ایس ایس یارک ٹاؤن نامی بحری جہاز نے سمندر سے نکالا۔

’ناسا آج چاند تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہ لوگ رک گئے ہیں اور ناسا اب صرف نوکریاں فراہم کرنے کا پروگرام بن گیا ہے۔ بہت سے مراکز اب مصروف رہنے کی کوشش کر رہے ہیں اور عوام کی طرف سے کارکنوں کو تنخواہ ملنے اور کانگریس کے لوگوں کو دوبارہ منتخب کرنے کے علاوہ ناسا کی حمایت نہیں کی جاتی۔’

1970 کی دہائی میں اپولو پروگرام کے مکمل ہونے پر زمین کے قریبی مدار میں تلاش کی مہم کے فیصلے پر اینڈرز نے تنقید کی۔ ’میرے خیال میں سپیس شٹل ایک غلطی تھی۔ ولولہ انگیز اڑان کے علاوہ سپیس شٹل کچھ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔‘

’سپیس سٹیشن صرف شٹل کی وجہ سے وہاں موجود ہے۔ تاخیر سے ہوئی لونر لینڈنگز کی وجہ سے ناسا نے انسانوں کو خلا میں بھیجنے والے پروگرام میں بہت انتظامی بدعملی کا مظاہرہ کیا۔‘

اپنے خلائی مشن کو اچھے الفاظ میں یاد کرنے والے محب وطن اور سابق امریکی فوجی کا ایسے خیالات کا اظہار حیران کن ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سپیس کمیونٹی میں اینڈرز کے چند لوگوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔

انھوں نے وضاحت کی ’میرا خیال ہے ناسا کے پاس جو کچھ ہے وہ اس پہ خوش ہیں لیکن میرے نزدیک اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس طرح کی رائے رکھنے کی وجہ سے ناسا میں میری مقبولیت کم ہو گئی ہے لیکن میں اپنی بات پر قائم ہوں۔‘

تاہم اپولو 8 مشن کو چلانے والے اور جیمینائی پروگرام کے دوران زمین کے مدار میں دو ہفتے گزارنے والے اینڈرز کے سابق ساتھی فرینک بورمین زیادہ پرامید ہیں۔

’میں ناسا پر اتنی تنقید نہیں کر سکتا جتنی بِل کرتے ہیں مگر میرا ماننا ہے کہ ہمیں اپنے شمسی نظام میں بہت زیادہ تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے اور انسان اس تحقیق کا لازمی جزو ہے۔‘

جب مریخ پر نجی مشن لانچ کرنے والے سپیس ایکس کے بانی ایلون مسک اور ایمیزون کے مالک جیف بیزوز کے منصوبوں کے بارے میں پوچھا گیا تو فرینک بورمین نے زیادہ تعریف نہیں کی۔

’میں سمجھتا ہوں کہ مریخ کو لے کر بہت سی باتیں فضول ہیں۔ مسک اور بیزوز مریخ پر بستیاں بسانا چاہتے ہیں جو بلکل فضول بات ہے۔‘

[pullquote]اپولو کی میراث[/pullquote]

چاند پر اپنے تاریخی مشن کی یادوں پر روشنی ڈالتے ہوئے بورمین نے اپولو 8 کو ایک ’عظیم کوشش‘ کا نام دیا اوراس بات پر اتفاق کیا کہ اس مشن نے خلا میں بھیجے جانے والے مشنز کی ریس جیت لی۔

اینڈرز کا کہنا تھا کہ مشن کی میراث عملے کی طرف سے لی جانے والی زمین کے طلوع ہونے کی ایک تصویر ہے جو انسانوں کے سیارے کو قمری افق کے اوپر پھیلی ہوئی خلا کی تاریکی میں دکھاتی ہے۔

ان کے ساتھی جِم لوویل نے زمین کے طلوع ہونے کے لمحات پر غوروفکر کرتے ہوئے کہا ’جب میں نے زمین کی طرف دیکھا تو سوچنے لگا کہ میں یہاں پر کیوں ہوں، میرا یہاں آنے کا مقصد کیا ہے اور پھر مجھے سمجھ آنے لگی۔‘

’میرا نقطۃ نظر ہے کہ خدا نے انسانیت کو سٹیج فراہم کیا ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکے۔ اس ناٹک کی کامیابی کا انحصار ہم پر ہے۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے