سیاست دان اور جرنیل میں فرق کیا ہے؟

فیصلہ آنے کے بعد آدھا گھنٹہ گزرتا ہے میاں نواز شریف اپنے مصاحبین کے ساتھ کمرہ عدالت میں موجود ہوتے ہیں ، میڈیا کے نمائندوں سے خوش گوار موڈ میں گپ شپ کر رہے ہیں ، ایک گھنٹہ گزرتا ہے ، عدالتی اہلکار کھسر پھسر کرتے ہیں. ڈیڑھ گھنٹہ گزرتا ہے نیب کے اسٹنٹ کمشنر کمرہ عدالت میں آتے ہیں، میاں نواز شریف کو وارنٹ گرفتاری دکھاتے ہیں ، کہتے ہیں میاں صاحب چلیں! میاں نواز شریف جواب دیتے ہیں "جی چلیں گاڑی اپ کے پاس ہے ، اگر نہیں ہے تو ہماری گاڑی میں چلتے ہیں ”

اعصاب بحال ، چہرے پر ملال نہیں ، نواز شریف اُٹھ کر ساتھ چل پڑتے ہیں ، اسی ملک کی ایک عدالت سابق جنرل پرویز مشرف کی سنگین غداری کیس میں گرفتاری کا حکم دیتی ہے اور فرد جرم عائد کرنا چاہتی ہے ، گرفتاری کے خوف سے جنرل کی ٹانگیں کانپ اُٹھتی ہیں ، جنرل گاڑیوں کے جلو میں اسلام آباد میں اپنے فارم ہاوس سے نکلتا ہے اور عدالت حاضر ہونے کی بجائے سیدھا راولپنڈی "ایم ایچ” پہنچ جاتا ہے ، کہا جاتا ہے کہ جنرل دل کے مرض میں مبتلا ہے ، وہی جنرل جو مُکے لہرایا کرتا تھا کہ میں بہادر کمانڈو ہوں ، کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ، عدالتوں کا سامنا بہادری سے کروں گا ، پھر ایسا باہر گیا کہ واپس نہ آیا .یہ فرق ہے ایک سیاست دان اور جنرل میں ، جو کورٹ رپورٹننگ کرتے ہوئے جس کا میں نے مشاہدہ کیا.

سیاست دان کی اُٹھان عام لوگوں سے ہوتی ہے ، عوام اس کا سرمایہ ہوتے ہیں ، عوام کی آواز پر وہ لبیک کہتے ہوئے اس کی فلاح و بہبود کا کام کرتا ہے ، اس کا جینا مرنا عوام کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ جنرل ساری زندگی شاہانہ انداز میں گزارتا ہے ، اُن کا لائف سٹائل ہی جداگانہ ہوتا ہے ، عوام کے مسائل کا انہیں کیا ادراک؟ عوام کو وہ اپنا سرمایہ نہیں سمجھتے ہیں بلکہ بندوق کو اپنا سرمایہ سمجھتے ہیں اور پھر اسی بندوق کے زور پر وہ عوام پر اپنے فیصلے مسلط کرتے ہیں.

پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ورق ورق جرنیلوں کے سیاہ دھبوں سے پُر ہے ، جنرل ایوب کے بعد یحییٰ خان آیا ، آمریت کی سیاہ رات کے بعد بھٹو کی شکل میں جمہوریت کا سویرا ہوا مگر ایک بار پھر جنرل ضیاءالحق بلڈی سویلین کو عدالتوں کے ساتھ مل کر تختہ دار پر چڑھا دیا.

کہا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی پیدوار ہیں بات سادہ سی ہے کہ میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہو تو پھر ہر فوجی جنرل کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ کیوں ہو جاتے ہیں ، جنرل بیگ ہوں یا آصف نواز، جنرل کاکڑ ہوں یا جہانگیر کرامت ہر ایک کے ساتھ میاں نواز شریف کی نہیں بنی ، میاں نواز شریف بات سول سپر میسی کی کرتے ہیں جو جنرلوں کو قبول نہیں ، پھر سازشیں شروع ہو جاتی ہیں .

ایسی ہی ایک سازش اس وقت ہوتی ہے جب نواز شریف واجپائی کو لاہور لے کر آئے ، ایک آٹھ رکنی کمیٹی بنائی جاتی ہے جو مسئلہ کشمیر سمیت پاکستان ہندوستان کے تمام دیرینہ مسائل کے حل کی طرف پیش رفت کرتی ہے ، کمیٹی کشمیر کے حل کے قریب پہنچ جاتی ہے ، پھر کارگل ہو جاتا ہے اس کے بعد کی تاریخ ہے.

میاں نواز شریف کو آخری دور حکومت میں صرف آٹھ سے دس ماہ آزادنہ کام کرنے کا موقع ملا اور یہ وقت وہ تھا جب جنرل راحیل شریف کو یہ امید تھی کہ ان کی مدت ملازمت میں توسیع ہو گی ، اسی امید پر سویلین حکومت سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی ، جب امیدیں دم توڑ گئی تو پھر ڈان لیکس کا معاملہ اُٹھا اس کے بعد فیصلہ ہوا کہ نواز شریف کو عبرت کا نشانہ بنانا ہے .

طے پایا کہ نواز شریف کو مقدمات میں اتنا الجھاؤ کہ اس کے اعصاب جواب دے جائیں، بیگم بیمار ہوئی لندن کے ہسپتال میں زیر علاج رہی عیادت کے لیے عدالت سے جانے کی اجازت نہ ملی، گرفتار کیا گیا ، بیٹی سمیت اڈیالہ جیل بند کر دیا گیا ، اعصاب نہ ٹوٹے سیاسی رفیق بھی ثابت قدم رہے ، بیگم کی رحلت پر اڈیالہ سے جانے کی اجازت ملی ، کانا پھوسی ہوئی کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے پا جائیں گے مگر رہائی کی مدت پوری ہونے کے بعد میاں نواز شریف پھر جیل میں چلے گئے.

العزیزیہ ریفرنس میں ملنے والی سزا کے بعد جیل کی سلاخوں سے ڈرا نہیں بلکہ انھیں گلے سے لگایا، نیب کا اے سی وارنٹ گرفتاری لے کر آیا تو وہ کمرہ عدالت میں موجود میڈیا کے نمائندوں سے اس وقت یہ گفتگو کر رہے تھے ، جب جنگ حق سچ کی ہو تو حوصلہ اللہ دیتا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے