مکتی باہنی کے ہاتھوں غیر بنگالیوں کا قتل عام …

ایک فراموش باب

آج یہ سوال تو بڑے اہتمام سے اٹھایا جاتا ہے کہ پاکستانی فوج نے 26 مارچ کو مشرقی پاکستان میں آپریشن سرچ لائٹ کیوں کیا لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ مکتی باہنی اور بھارتی کمانڈوز نے مشرقی پاکستان میں قتل و غارت کے کتنے خونی باب رقم کیے کہ آپریشن کرنا پڑا. اسی طرح ڈھاکہ یونیورسٹی میں لوگوں کے مارے جانے کے نوحے بھی بہت پڑھے جاتے ہیں لیکن اس پہلو پر کوئی بات نہیں کرتا کہ جب یونیورسٹی بند کی جا چکی تھی تو وہ کون سے ’’ طلباء‘‘ تھے جو اقبال ہال اور جگن ناتھ ہال میں اسلحے کے ڈپو پر پہرہ دے رہے تھے اور ٹارچر سیل اور قصاب خانے چلا رہے تھے ۔

پاکستان کا خیال تھا معاملات سنبھل جائیںگے اس لیے اس نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام کے بیچ نفرت کے جذبات کو روکنے کی کوشش کے طور پر اخبارات کو حکم جاری کر دیا کہ مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کے قتل عام کی خبریں شائع نہ کی جائیں ۔ چنانچہ جب چٹاگانگ سے لٹاپٹا قافلہ کراچی بندرگاہ پراترا تو کسی نے یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہ کی ان پر کیا قیامت بیت چکی ۔

حقیقت تو یہ ہے وہاں محبت کا زمزم نہیں غیر بنگالیوں کا خون بہہ رہا تھا ۔ یاسمین سائیکا نے اپنی کتاب ’ ویمن ، وار اینڈ میکنگ آف بنگلہ دیش‘‘ میں لکھا کہ بہاریوں کی آبادی کا 20 فیصد مکتی باہنی نے بھارتی فوج کے ساتھ مل کرقتل کر دیا ۔ انسائیکلو پیڈیا آف وائیلنس ، پیس اینڈ کانفلیکٹ کے مطابق ایک لاکھ پچاس ہزار بہاری قتل کر دیے گئے ۔

فار ایسٹرن اکنامک ریویو کے نمائندہ برائے جنوبی ایشیا لارنس لفچلز نے لکھا کہ مکتی باہنی کے رہنما عبد القادر صدیقی نے کئی بنگالیوں کو چھرا گھونپ کر ہلاک کرنے کی ایک تقریب منعقد کرتے ہوئے اس کی باقاعدہ فلم بندی کرائی ۔ عورتوں کے اعضاء کاٹے گئے ۔ ان کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔انہیں بھارتی فوجیوں کو تحفے میں دیا گیا ۔ غیر بنگالیوں کو پکڑ ان کی رگوں سے سرنجوں کے ذریعے سارا لہو نکال کر انہیں قتل کیا گیا ۔

اس ظلم کی کہانی لکھنا میرے لیے ممکن نہیں ۔ جو جاننا چاہتا ہے وہ قطب الدین عزیزکی کتاب ’ بلڈ اینڈ ٹیئرز‘‘ کا مطالعہ کر لے جہاں ان مظالم کا آنکھوں دیکھا حال لکھ دیا گیا ہے ۔ یاد رہے کہ یہ مکتی باہنی کے وہ مظالم ہیں جن کے نتیجے میں پاکستان آرمی کو آپریشن کرنا پڑا ۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد جو ہوا وہ تو ایک الگ داستان ہے جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں ۔

ایک کالم میں آخر کتنا کچھ لکھا جا سکتا ہے ؟ تاہم مکتی باہنی کے ظلم و تشدد کی چند گواہیاں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں تاکہ کچھ حقیقت آپ پر آشکار ہو سکے ۔

2 مئی 1971 ء کے سنڈے ٹائمز میں انتھنی مسکان نے لکھا کہ قریبا ایک لاکھ غیر بنگالیوں کا قتل عام کیا گیا ۔ تیرہ جون کو ایک اور مضمون میں انتھنی نے اس قتل عام کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا : ’’عورتوں کی آبرو ریزی کی گئی ۔ خاص طور پر تیار کیے گئے چاقوئوں سے ان کی چھاتیوں کو کاٹا گیا ۔ بچے بھی اس قتل عام سے محفوظ نہ تھے ۔ لوگوں کی آنکھیں تک نکال پھینکی گئیں ۔ چٹا گانگ ، کھلنا اور جیسور میں بیس ہزار بنگالیوں کی لاشیں پائی گئیں ۔ چٹا گانگ ملٹری اکیڈمی کے غیر بنگالی کمانڈنٹ کو اس کی بیوی سمیت قتل کر دیا گیا ۔ ایک غیر بنگالی خاتون کو قتل کر کے اس کے ننگے جسم پر اسی کے بیٹے کا سر رکھ دیا گیا ۔ کئی نوجوان عورتوں کی لاشیں سڑکوں پر پڑی تھیں جن کی شرمگاہوں میں بنگلہ دیش کے جھنڈوں والے ڈنڈے ٹھونس دیے گئے تھے‘‘۔

دیناج پور میں ایک اجتماعی قبر دکھائی گئی ۔ وہاں کا ڈپٹی کمشنر بنگال کا تھا ۔ اس نے کہا یہ فوج کے ہاتھوں قتل ہونے والے بنگالی ہیں ۔ لیکن جرمنی کے صحافی ہربرامان نے لکھا کہ یہ لاشیں بتا رہی تھیں کہ یہ وہ غیر بنگالی ہیں جو مکتی باہنی کے ہاتھوں مارے گئے۔

نیویارک ٹائمز میں 9 مئی 1971 ء کو میلکم برائون نے لکھا کہ ٹھوس شہادتیں موجود ہیں کہ بنگالیوں نے غیر بنگالیوں کے گھر لوٹے اور لوگوں کو قتل کیا ۔ امریکہ کی ایسوسی ایٹڈ پریس کے نمائندنے نے میمن سنگھ کا دورہ کیا اور لکھا کہ یہاں پانچ ہزار غیر بنگالی آباد تھے، اب صرف پچیس باقی ہیں ۔

کچھ واقعات ایسے بھی ہیں کہ غیر بنگالیوں سے کہا گیا مرنے سے پہلے اپنی قبریں خود کھودو ۔مکتی باہنی نے بھارتی فوج کی معاونت سے خونی کھیل شروع کر رکھا تھا۔ چنانچہ آرمی ایکشن کا فیصلہ کیا گیا۔

مکتی باہنی کے مظالم اور ان کے ہاتھوں ہونے والا قتل عام ایک ایسی حقیقت ہے جو اگر چہ کم ہی بیان کی جاتی ہے لیکن اس کا انکار ممکن نہیں ۔ خود بنگلہ دیش حکومت کو احساس ہے کہ مکتی باہنی نے کیا کچھ کیا ۔ بنگلہ دیش کی اپنی ہوم منسٹری کی دستاویزات میں یہ بات موجود ہے کہ غیر بنگالیوں کا قتل عام ہوا تھا۔اور مارے جانے والوں کی اکثریت بہاریوں پر مشتمل تھی ۔ چنانچہ مکتی باہنی کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے اور ان قاتلوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے National liberation struggle Indemnity Order لایا گیا اور اس کی دفعہ2 کے تحت ان تمام جرائم کو قانونی کارروائی سے استثنیٰ دے دیا گیا جو مکتی باہنی نے کیے تھے ۔

ہمارے کچھ دانشور ہمیں بتاتے ہیں کہ مکتی باہنی نے تو پاکستانی فوج کے آپریشن کے بعد ہتھیار اٹھائے تھے ۔ یاد رکھیے کہ یہ آپریشن 25 مارچ کو ہوا تھا جب کہ قانون میں لکھا ہے مکتی باہنی کے ان افعال کو بھی استثنیٰ ہو گا جو اس نے یکم مارچ سے پچیس مارچ تک کیے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ ان پچیس دنوں میں اگر مکتی باہنی نے کچھ کیا ہی نہیں تھا تو اسے ان دنوں کا استثنیٰ کیوں دیا گیا ؟ کیا یہ اس بات کا اعتراف نہیں کہ فوجی آپریشن کے نتیجے میں مکتی باہنی نہیں بنی تھی بلکہ مکتی باہنی کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں کے قتل عام کے نتیجے میں آپریشن کیا گیا تھا۔

غور فرمائیے مکتی باہنی کو دیا گیا یہ یہ استثنیٰ یکم مارچ 1971 سے لے کر 28 فروری 1972 تک ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ 16 دسمبر کو تو جنگ ختم ہو گئی اور بنگلہ دیش بن گیا۔ اب تو مکتی باہنی کوئی ’’جدو جہد ‘‘ نہیں کر ہی تھی ۔پھردسمبر کے باقی ایام اور جنوری اور فروری کا استثنی کیوں دیا جا رہا ہے ؟ یہ در اصل اس بات کا اعتراف ہے کہ سولہ دسمبر سے اٹھائیس فروری تک مکتی باہنی نے جی بھر کر قتل عام کیا اور غیر بنگالیوں کو انتقام کا نشانہ بنایا ۔چنانچہ قانون لانا پڑا کہ اس عرصے میں مکتی باہنی نے جو کچھ کیا اس پر کوئی مقدمہ قائم نہیں ہو سکتا

۔ اس سلسلے کو ، فی الوقت ، میں یہاں ختم کر رہا ہوں۔ پھر کبھی اس پر بات ہو گی ۔ ابھی بہت کچھ کہنا باقی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے