205ویں دلہن کی تلاش!

اولاد نرینہ کیلئے دنیا میں سب سے زیادہ شادیاں کرنے والے بابے کی عجیب داستان

مصر کے ایک 78 سالہ شخص نے اب تک 204 شادیاں کی ہیں اور اب 2 سو پانچویں بار دلہا بننے جا رہا ہے۔ قاہرہ سے تعلق رکھنے والے ایک سابقہ طبلہ نواز اور گلوکار ”چاچا مصطفی“ نے شادیوں کے اپنے 64 سالہ ”کیریئر“ میں مصر کی نامور گلوکاراؤں اور رقاصاؤں سے بھی نکاح کیا۔ تاہم ان کی بیشتر بیویاں انتقال کر گئیں، کچھ بھاگ گئیں اور باقی کو انہوں کو طلاق دیدی۔ 2 سو 4 خواتین سے شادی کے باوجود چاچا مصطفی کے یہاں صرف 3 بیٹیاں ہوئیں۔ انہوں نے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام کے اندراج کا مطالبہ کیا ہے۔

متحدہ عرب امارات سے شائع ہونے والے معروف اخبار ”البیان“ کی رپورٹ کے مطابق، مصری دارالحکومت قاہرہ میں ایک ایسا شخص سامنے آیا ہے، جس نے اب تک 204 شادیاں کی ہیں۔ دستیاب تاریخ انسانی میں اس سے زیادہ شادی کرنے کا ریکارڈ کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے بلاشبہ اس کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کیا جانا چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق، گنیز بک آف ورلڈ کے شادیوں اور طلاقوں سے متعلق صفحے میں سب سے زیادہ شادی کرنے والی خاتون کا نام تو درج ہے، تاہم یہ اعزاز حاصل کرنے والے مرد کا ذکر نہیں ہے۔

گنیز کے مطابق، لنڈا وولف نامی خاتون نے 23 شادیاں کرکے یہ ریکارڈ قائم کیا ہے۔ جبکہ سب سے طویل ازدواجی زندگی گزارنے والا جوڑا ہربرٹ نامی شخص اور زیلمبرا فشر نامی خاتون کا ہے، انہوں نے 86 برس 9 ماہ اور 16 دن جیون ساتھی بن کر زندگی گزاری، تاہم 27 فروری 2011ء کو شوہر کا انتقال ہوا۔ مذکورہ دونوں ریکارڈ ہولڈروں کے ملک کا نام درج نہیں ہے۔ مصری ذرائع ابلاغ میں ”چاچا مصطفی“ کی 204 شادیوں کی خبریں شائع ہونے کے بعد ”البیان“ نے ان کا ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے۔

چاچا مصطفی کا کہنا ہے: ”میرا گھر قاہرہ شہر کے شارع نجیب الریحانی میں ہے۔ بچپن میں میرے والدین نے میری تعلیم پر کوئی توجہ نہ دی۔ قدرت نے مجھے خوبصورت آواز سے نوازا تھا۔ اس لیے میں نے نوعمری ہی میں گلوکاری شروع کردی۔ پھر میں نے مذکورہ شارع پر بینڈ باجے کی ایک چھوٹی سی دکان بھی کھولی، جس میں شادی بیاہ کی تقریبات کے حوالے سے بینڈ باجوں سمیت تمام لوازمات موجود تھے۔ اسی دوران محلے کی ایک مطلقہ لڑکی کے بارے میں اپنے ایک دوست کے توسط سے مجھے علم ہوا۔ اس لڑکی سے میں نے خود شادی کی بات کی تو وہ مان گئی، تاہم بعد اس کے بھائی نے میرے فلیٹ میں آکر مجھے دھکمیاں دیں کہ میں اس کی بہن کو طلاق دوں۔ میں اسے طلاق دینا نہیں چاہتا تھا۔ مگر مجبوراً اسے چھوڑنا پڑا۔ یہ 1949ء کی بات ہے۔ وہ خاتون کچھ عرصے تک میرے عقد میں رہی۔

اسے طلاق دینے کے ایک ہفتے بعد ہی میں نے دوسری شادی کرلی۔ دوسری بیوی کوشادی کے اگلے دن ہی میں نے اس لیے طلاق دی کہ اس کے گھر والوں نے میرے ساتھ دھوکہ کیا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا نہیں تھا کہ لڑکی کے چہرے پر بچپن میں جلنے کے داغ ہیں۔ جیسے ہی میری ان داغوں پر نظر پڑی میں نے اسے رخصت کردیا۔ اس دوران گلوکاری اور بینڈ بجانے کے میدان میں، میں نے کافی شہرت حاصل کی تھی۔ ایک پروگرام میں نامور رقاصہ نجمیٰ فواد سے میری شناسائی ہوئی، جو کچھ عرصے بعد مجھ سے شادی کرنے پر رضامند ہوگئی۔ تاہم یہ ازدواجی زندگی بھی زیادہ دیرپا ثابت نہ ہوسکی اور کئی وجوہات کی بنا پر مجھے نجمیٰ کو طلاق دینی پڑی۔“

چاچا مصطفی نے مزید بتایا: ”گلوکاری میں مقامی حد تک شہرت حاصل کرنے کے بعد مصر کے نامور موسیقار محمد عبد الوہاب نے مجھے اپنے ساتھ کام کرنے کی پیشکش کی، جسے میں نے قبول کرتے ہوئے اس کے دفتر میں کام کرنا شروع کردیا۔ یہیں سے گویا میری شادیوں کے دروازے کھل گئے۔ عبد الوہاب کے دفتر میں موسیقی کے تمام متعلقہ شعبوں کی تربیت دی جاتی تھی۔ اس لیے یہاں روزانہ کئی لڑکیاں رقص سیکھنے آیا کرتی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب اسرائیل عرب جنگ چل رہی تھی۔ اس لیے ملک میں غربت اور بے روزگاری کے باعث بہت سی لڑکیاں نہ چاہتے ہوئے اس فن کو بطور روزگار اپنانے پر مجبور تھیں۔ میں اگرچہ خود موسیقی سے وابستہ تھا، تاہم خواتین کا اس فیلڈ میں آنے کو میں نے ہمیشہ معیوب سمجھا ہے۔

دفتر میں نئی آنے والی لڑکیوں کو پہلے مجھ ہی سے بات کرنی ہوتی تھی، تو میں انہیں رقاصہ بننے سے بچانے کے لیے انہیں شادی کی آفر کرتا اور انہیں بتاتا کہ شادی کے بعد میں انہیں اس میدان میں آگے میں مدد دوں گا۔ اس لالچ میں آکر بہت سی لڑکیوں نے میری اس پیشکش کو قبول کیا، پھر حسب وعدہ ابتدا میں مجھے انہیں رقص اور گانا سکھانے کے لیے تربیت گاہ میں داخل کرنا پڑتا۔ تاہم اس میدان میں آکر ملنے والی شہرت اور پیسے کو دیکھ کر انہوں نے مجھ سے ناطہ توڑ دیا اور بہت سی بیویاں ایسے غائب ہوگئیں کہ اب مجھے ان کی شکل بھی یاد نہیں ہے۔“ مصطفی سے سوال کیا گیا کہ انہیں اتنی زیادہ شادیاں کرنے کا شوق کیوں ہوا، کیا یہ خواہشات کا حد سے زیادہ بڑھنا تو نہیں ہے؟ تو ان کا کہنا تھا: ”میری ایک چھوٹی بہن تھی، جسے دوسری بہنوں کے مقابلے میں، میں بہت چاہتا تھا۔ ایک دن خبر ملی کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور میری بہن کا اسی وقت انتقال ہوگیا۔ تو اس کے بعد سے خواتین کے لیے میرا دل بہت ترس کھاتا ہے۔

موسیقی کی دنیا میں شہرت کے ساتھ ساتھ میرے پاس مال و دولت کی کوئی کمی نہیں تھی، اس لیے جہاں کہیں کسی خاتون کے بیوہ ہوجانے کے بارے میں، میں سنتا تو میں اس سے شادی کی پیشکش کرتا، یوں اسے اپنی بیوی بنا کر اس کی تمام ضروریات کو پورا کرتا۔ تاہم یہ عجیب بات ہے کہ بیویاں میرے پاس زیادہ دیر نہیں ٹھہرتیں، میرے حسن سلوک کے باوجود وہ مجھے چھوڑ جاتی ہیں۔“ مصطفی چاچا سے پوچھا گیا کہ آخر اتنی زیادہ بیویاں انہیں کس طرح ملیں؟ تو انہوں نے کہا: ”جیسے کہ میں نے بتایا، یہ وہ عرب اسرائیل جنگ کا زمانہ تھا، جس میں ہزاروں فوجی اور عام شہری قتل ہوگئے تھے، اس دوران صرف 2 مصری پاؤنڈ مہر پر بھی بیوی مل جاتی تھی۔ جبکہ میں نے کئی ایسی شادیاں بھی کی ہیں، جن میں بیوی کا مہر صرف ایک پاؤنڈ رکھا گیا تھا۔“ انہوں نے کہا: ”اس حوالے سے میرے ایک دوست مولوی صاحب نے میرا کام آسان بنادیا تھا۔

جس خاتون کو بھی میں شادی پر راضی کرلیتا، فوراً گاڑی میں بٹھا کر اس مولوی صاحب کے پاس لے جاتا اور وہ خاتون کے سامنے مہر کم مقرر کرنے کی ایسی فضیلت بیان کرتا کہ خاتون فوراً ہی ایک پاؤنڈ پر راضی ہوجاتی۔ پھر طلاق کے بعد ایک پاؤنڈ مہر ادا کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔“ مصطفی نے بتایا کہ مصر کی نامور گلوکارائیں اور رقاصائیں میری بیویاں رہ چکی ہیں۔ ان میں فاطمہ عید بھی شامل ہے، جس سے میری ”ہالہ“ نام کی بیٹی ہوئی، جو کہ آج کل سعودی عرب میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں سب سے زیادہ وقت بھی فاطمہ عید کے ساتھ گزارا جوکہ بارہ سال تھا۔ جبکہ سب سے کم وقت جس بیوی کے ساتھ گزارا وہ صرف ایک دن پر مشتمل تھا۔ اپنی سب سے محبوب بیوی کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مصطفی نے بتایا کہ، میں ڈیڈی کو نہیں بھلا سکتا۔

اس کا تعلق فرانس سے تھا، اس نے مصر میں آکر اسلام قبول کرلیا تو میں حسب عادت سب سے پہلے اس کے پاس پہنچ کر شادی کی پیشکش کی، جسے اس نے قبول کرلیا۔ تاہم کچھ ہی دنوں بعد ایک ٹریفک حادثے میں اس کا انتقال ہوگیا۔ مصطفی کا کہنا ہے کہ، میری زیادہ تر بیویوں کا انتقال ہو چکا ہے۔ اب آخری بیوی بھی دنیا سے چلی گئی، جس کے بعد میں عنقریب شادی کرنے والا ہوں، جو میری دو سو پانچویں شادی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اس عمر میں شادی کی ضرورت اس لیے محسوس ہورہی ہے کہ ایک تو جس سال میں نئی شادی نہ کروں، مجھے چین ہی نہیں آتا، دوسرا یہ کہ 204 شادیوں کے باجود میں اب تک اولاد نرینہ سے محروم ہوں، بیٹیوں کی شادیاں ہوگئیں، اب میں اکیلا رہنا میرے لیے مشکل ہورہا ہے۔

میری نوجوانوں سے اپیل ہے کہ وہ زیادہ شادیاں نہ کریں، ایک ہی شادی کرکے اپنا گھر بسانے کی فکر کریں۔ رپورٹ کے مطابق، مصطفی چاچا کے بارے میں پہلی بار ذرائع ابلاغ کو پتہ چلا ہے کہ انہوں نے شادیوں کی دو سنچریاں مکمل کر رکھی ہیں۔ یہ خبر بھی میڈیا میں اس طرح آئی کہ مصطفی نے اپنی تمام مفرور بیویوں کے نام اخبار میں ایک اشتہار دیا ہے کہ ان کے پاس اگر میرا کوئی بیٹا ہو تو وہ مجھے لوٹا دیں یا کم از کم اسے مجھ سے ملالیں۔ تاہم ذرائع ابلاغ میں خبر آنے کے بعد مصطفی کی پورے عرب خطے میں شہرت ہوگئی ہے۔ اس لیے اب انہوں نے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ سے اپیل کی ہے کہ ان کا نام سب سے زیادہ شادی کرنے والے مرد کے طور پر ریکارڈ میں شامل کیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے