کشمیرکی لہوروتی آنکھیں!

میں جب کبھی گھر جاتا ہوں تو امی میری آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور پھر میری آنکھوں میں دیکھ کر مجھے کہتی ہیں۔ ”پتر تم ایک چشمہ بنوا لو ، ہر وقت کمپیوٹر کے آگے بیٹھے رہتے ہو کہیں تمہاری نظر کمزور نہ ہو جائے دیکھو ، تمہاری آنکھوں میں سرخ لکیریں بنی ہیں ، اتنی کتابیں پڑھتے ہو ، ان کے چھوٹے چھوٹے حروف آنکھوں کو نقصان دیتے ہیں “۔ اور میں امی کی بات پر مسکرا کر ہامی بھرتا ہوں کہ امی اس بار ضرور نظر چیک کروا کر چشمہ بنواﺅں گا، لیکن امی بھلا جب جانتی ہیں کہ یہ سرخ خون لیپ ٹاپ کی اسکرین سے نکلے والی’ وی یو‘ ریز سے نہیں بلکہ وادی کشمیر سے نکلی ان خبروں کے وجہ سے نکل آتا ہے جہاں پیلٹ گن کے چھرے انہیں زندگی سے تو دور نہیں کرتے مگر چلتی سانسوں کے ساتھ موت کی وادی میں حنوط کر دیتے ہیں۔

یہ طے کرنا مشکل ہے کہ بات کہاں سے شروع کروں، ماضی کے کھنڈر کھودے جائیں یا حال میں ادھڑی چمڑیوں ، بے نور آنکھوں اور پیلٹ زدہ چہروں کے لیے بھارتی سورماﺅں پر رزمیہ شاعری لکھوں ، نوحے لکھوں یا نثر تحریر کروں۔ مقامی و قومی انسانی حقوق کی تنظیمیں، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر، ایشیا سے افریقہ تک ہلکی سی خبر کو انسانی حقوق کے تناظر میں ایک ٹرینڈ بنا دینے والے سوشل میڈیا صارفین اور ناصح و دلجو، کس کو الزام دوں کہ ادھر دیکھو میری آنکھیں خون رو رہی ہیں ، ان میں سرخ خون ہے ، ویسا ہی جیسے امریکا میں ایک امریکی کا ہے، روس کے صدر پیوٹن کا ہے، ویتنام کے صدر نگیوین فوتونگ کا ہے، نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹالٹنگ برگ کا ہے، بھارت کے آرمی چیف بیپن روت کا ہے اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا ہے ۔ بالکل اسی رنگ کا خون میر بھی آنکھوں سے بہہ رہا ہے ، کسے آواز دوں کس کو پکاروں کس سے فریاد کروں۔

بھارتی مقبوضہ وادی میں 2018 میں بھارتی درندگی کا نشانہ بننے والی انسان نما کشمیریوں کی تعداد پانچ سو چھیاسی 586 ہے جن میں 267عسکریت پسند 160مقامی افراد اور 159پولیس کے سپاہی یا بھارتی فوجی شامل ہیں، صرف نومبر میں 48 اور دسمبر میں 50 سے زائد کشمیری بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور یہ سب عسکریت پسند نہیں بلکہ ان میں سے اکثریت عام کشمیریوں کی ہے ، جن میں راہ گیر ، جھڑپ کے مقام پر بسنے والے مقامی لوگ خواتین و بچے شامل ہیں ۔ مرنے والے زیادہ نوجوان ہیں جن کی عمریں چودہ سے چونتیس سال تک ہیں ، ریاست میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن ، آہوں اور سسکیوں میں لپٹی سرگوشیاں نہ سنائی دیتی ہوں، جنازے نہ اٹھتے ہوں ، ماتم نہ کیا جاتا ہے ، بچے یتیم نہ ہوتے ہوں، عورتیں بیوہ نہ ہوتیں اور اس سے بڑھ کر کئی گھروں کے اکلوتے چشم و چراغ صبح گھر سے نکل کر کبھی نہ لوٹے ہوں۔ لیکن انسانی حقوق کے دعوے داروں ، خواتین و بچوں کے حقوق کے ناٹک کرنے والوں کے کانوں پر جوں تک رینگتی ہو۔

پچیس نومبر کو ایک بیس ماہ کی بچی کو پیلٹ کے چھرے لگتے ہیں لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں ٹس سے مس نہیں ہوتا ہے ، یونیسف نامی تنظیم میں کہیں کوئی طوفان نہیں اٹھتا ہے، میڈیا کہیں خبر نشر نہیں ہوتی ہے اور بیس ماہ کی بچی ہسپتال پہنچ جاتی ہے ، حبہ سوال کر رہی تھی کہ وہ کتنی بڑی دہشت گرد ہے؟ اس نے کس سے آزادی مانگی ہے؟ اسے کس جرم کی سزا ملی ہے مگر کوئی جواب نہیں تھا کہیں جواب نہیں تھا۔ حالیہ تین برسوں میں بھارقی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیون کے ہاتھوں 24,432 افراد زخمی ہوئے، پیلٹ سے زخمی ہونے والوں کی تعداد 8424 ہے، 128 نوجوان بصارت سے مکمل محروم ہو گئے، 207 نوجوانوں (مرد و خواتین) کی ایک آنکھ مکمل ضائع ہو گئی، 1020 وہ نوجوان ہیں جو گزرتے وقت کے ساتھ بصارت سے مکمل محروم ہو جائیں گے، 1869 ایسے نوجوان ہیں جن کی بصارت کو جزوری نقصان پہنچا ، مگر کہیں کوئی غم نہیں منایا گیا۔ کار زندگی یوں ہی چلتا رہا ۔ سرخ رنگ کے خون کی اہمیت بھلا اس وقت کیسے ہو سکتی ہے جب وہ خون کشمیریوں کا ہو۔

ستم بالائے ستم یہ کہ ایک طرف مکمل سکون میسر نہیں ہوا تو سیز فائر لائن پر جب دل چاہا فائر کھول دیا۔ صرف 2018 میں سیز فائر لائن (لائن آف کنٹرول) پر 125 کشمیری گولوں کانشانہ بنے جن میں سے 27 پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جبکہ 29 افراد بھارتی زیر انتظام کشمیر میں مارے گئے۔ 69 افراد کو فقط شبے میں مار دیا گیا، ان میں بچے بھی تھے، جوان بھی تھے، پورا کنبہ بھی تھا اور پورا خاندان بھی تھا۔ لیکن اس بہتے خون کے پارٹیکلز شاید بہت ہی سستے ہیں اور پانی کے بھاﺅ میسر ہیں ۔ پچھلے دس سالوں میں 4059افراد اس شورش کا شکار ہوئے جن میں سے 1890عسکریت پسند، 1081سویلین اور 1088پولیس یا آرمی افسران شامل ہیں جبکہ 2018میں بھارتی فوج کے ہاتھوں 120 گھروں کو نقصان پہنچا جن میں 94گھروں کو جزوی جبکہ 31گھر کلی طور پر تباہ ہو گئے۔

ریاست جموں کشمیر کی تیسری اکائی گلگت بلتستان بھی گزشتہ سال مکمل طور پر سیاسی تحریک کے زیر اثر رہا جس کا بنیادی مقصد گلگت بلتستان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا اور ان حقوق کو حاصل کرنا تھا۔ گلگت بلتستان کے مقامی رہنماوں کو قید و بند کے علاوہ کئی موقعوں پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ، دوسری جانب لداخ کے شہر لیہ سے شروع ہونے والی حالیہ تحریک بھی گزشتہ سال کے اہم تحریک واقعات میں سے ایک ہے اور آنے والے وقت میں ریاست جموں کشمیر کی جغرافیائی اکائی کے علاوے خطے میں جاری تحریکوں کے رنگ بدلنے میں معاون کی حیثیت اختیار کر جائے گی۔ ریاست جموں کشمیر کے بقیہ تین خطوں کے برعکس جموں پرامن رہا لیکن جموں کے علاقے کٹھوعہ میں ہونے والے واقعہ جس میں معصوم آصفہ کو تین درندوں نے مل کر جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جانا بھی بھارت اور پھر بین الاقوامی دنیا کی توجہ کا مرکز رہا ، یہاں تک کے آصفہ کے حق میں بالی وڈ انڈسٹری میں بھی گونج سنائی دی گئی۔ اس واقعہ نے بھی جموں کی ہندو کمیونٹی کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا تھا ۔

سوچیے! آپ کی آنکھ میں ایک کنکر بھی چلا جائے تو آپ تلملا اٹھتے ہیں لیکن ان لگ بھگ بیس ہزار آنکھوں کا کیا جن میں اعشاریہ بائیس ملی میٹر کے چھرے گھس جاتے ہیں اور پھر کبھی وہ آنکھیں دیکھ نہیں سکتی۔ لہو تو سرخ ہے نا پھر وہ آنکھ سے بہے یا کہیں اور سے ، پھر وہ چاہے کشمیری کا ہو، چینی کا ہو یا افریقی کا ہو۔ جہاں ایک جانب بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مکمل بربریت کا عالم ہے تو دوسری جانب سیز فائر لائن پر مسلسل فائرنگ کی وجہ سے املاک و مال کو نقصان پہنچنے اور امن سبوتاژ ہونے پر دونوں اطراف کے شہری سراپا احتجاج ہیں۔ کنٹرول لائن اور ورکنگ باونڈری کی ایک جانب بھارت کو کوسا جا رہا ہے تو دوسری جانب پاکستان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے اور ریاست جموں کشمیر کے شہریوں میں یہ یقین تقویت پکڑ رہا ہے کہ دونوں ممالک کے ہاتھ ہی کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔

اے دنیا کے منصفو، سلامتی کے ضامنو
کشمیر کی جلتی وادی میں ، بہتے ہوئے لہو کا شور سنو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے