آئینِ نو

تجربات سے جو نہ سیکھیں زوال ان کا مقدر ہوتا ہے۔ آزادانہ بحث اور تازہ خیالات ہی سے فراغ ممکن ہے۔
آئین نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے، قوموں کی زندگی میں

صدارتی نظام اور اٹھارہویں ترمیم کے ذکر سے کچھ لوگ چڑتے کیوں ہیں؟ کس احمق نے ان سے کہا کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کا لکھا ہوا گیت ہے؟ ان کے فرشتوں کو بھی یہ بات نہ سوجھی تھی، جب سے کچھ لوگ صدارتی نظام، چھوٹے صوبوں اور مضبوط بلدیاتی نظام کی بات کر رہے ہیں۔ پھر یہ کہاں لکھا ہے کہ ہر وہ بات غلط ہے، جس کا یہ لوگ تصوّر کریں۔ با اختیار صدر کے براہ راست انتخاب سے اسٹیبلشمنٹ کو کیا حاصل ہوگا؟کچھ بھی نہیں، چاروں صوبوں کے ووٹ سے چنا جانے والا صدر خستہ حال پارلیمانی نظام کے وزیراعظم سے کہیں زیادہ طاقتور ہوگا۔

اس بیمار نظام نے ملک کو کیا دیا؟ چیف جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ اٹھارہویں ترمیم پر پارلیمان میں بحث کیوں نہیں ہوئی؟ خاک بحث ہوتی۔ سیاسی فراست کے اعتبار سے کیا یہ لوگ اس قابل تھے کہ اس کی جزئیات کھنگال سکتے؟ جسٹس اعجاز الحسن نے واضح کیا ہے کہ پوری ترمیم نہیں، وہ صرف صحت سے متعلق معاملات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ضرورت تو یہ ہے کہ اس پوری ترمیم پر نظرثانی کی جائے۔ اس لئے کہ آئین کا ڈھانچہ ہی اس سے بدل ڈالا گیا۔ پارلیمان کو جس کا حق حاصل نہیں۔ تاہم از خود نوٹس نہیں، اس کے لیے کسی اور کو عدالت میں جانا چاہئے۔ بہترین وکلاء کی ایک ٹیم کے ساتھ۔

اٹھارہویں ترمیم میاں محمد نواز شریف، صدر آصف علی زرداری اور اے این پی کی ضرورت تھی۔ ایم کیو ایم زیادہ سرگرم تھی، آخر کیوں؟ الطاف حسین کے عزائم کیا تھے۔ اے این پی مضبوط مرکز کے ہمیشہ خلاف رہی اور اس کی وجوہات واضح ہیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اس نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کیوں کی۔ سستی بجلی جس سے پیدا ہوتی ۔صنعتوں کا پہیہ رواں رہتا۔ پختون خوا کے جنوبی علاقوں، خصوصاً ڈیرہ اسماعیل خان کو وافر پانی میسر آتا۔ مزید لاکھوں ایکڑ اراضی سیراب ہو سکتی۔

لاکھوں خاندانوں کی زندگی میں بہار آ جاتی۔ سندھ کے قوم پرست اور جاگیردار مختلف اسباب سے اس کے مخالف تھے۔ انتہا پسندوں میں بھارت نے راستے بنا لیے تھے۔ جاگیردار کچّے کے علاقے میں بلا قیمت میسر آنے والے پانی سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ ایک ارب یونٹ اس ڈیم سے حاصل کیے جاتے، جس پر زیادہ سے زیادہ دو تین روپے فی یونٹ خرچ اٹھتا۔ بجلی کمپنیوں کے ہاتھوں، جس عذاب سے ہم دو چار ہیں، اس سے نجات ملتی، کسی بڑے سیلاب کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل جاتا۔

آصف علی زرداری یہ چاہتے تھے کہ سندھ کو وہ ایک قدیم راجدھانی کی طرح چلا سکیں۔ اسے ایک چراگاہ بنا دیں اور وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہے۔ آج کا سندھ بدعنوانی کی دلدل ہے، کروڑوں انسانوں کے خواب، جس کی نذر ہوئے۔ یہ اٹھارہویں ترمیم کا شاخسانہ ہے کہ بلوچستان میں ایک ایک ایم پی اے کو 25، 30 کروڑ روپے سالانہ ملتے رہے… اور یہ تمام سرمایہ تقریباً مکمل طور پہ ضائع ہو گیا۔

نواز شریف کو صرف ایک چیز سے دلچسپی تھی کہ تیسری بار وزیراعظم بن سکیں۔ عالی جناب نے اس پہ غور کرنا ہی گوارا نہ کیا کہ قومی سلامتی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔سب سے زیادہ بربادی صحت کے شعبے میں برپا ہوئی۔ پرویز الٰہی کی وزارتِ اعلیٰ کے عہد میں ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں ہر مریض کو دوا دستیاب تھی۔ 1122 ایسا نادر منصوبہ ان کے دور میں پروان چڑھا۔ شہباز شریف کے اقتدار میں اس حال کو پہنچا کہ گاڑیاں خریدنے کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم شروع کرنا پڑی۔ دس سال تک شہباز شریف پنجاب میں قوس لمن الملک بجاتے رہے۔ رخصت ہوئے تو میو ہسپتال کے ٹاور اور وزیرآباد میں امراض قلب کے ہسپتال سمیت، گیارہ بڑے منصوبے نا مکمل پڑے تھے۔

ون یونٹ تو خیر ایک احمقانہ شوشہ ہے۔ تاریخ کا پہیہ الٹا نہیں گھمایا جا سکتا۔ کبھی کوئی اس کی جسارت نہ کرے گا۔ مگر اس کا جواز کیا ہے کہ صوبوں کی استعداد میں اضافہ کیے بغیر، بے پناہ اختیارات انہیں سونپ دیئے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ڈاکٹر عاصم ایسے کردار نمودار ہوئے۔ چند ماہ میں درجنوں میڈیکل کالجوں کے قیام کی اجازت جنہوں نے بخش دی۔

سندھ کی حکومت اس قدر منہ زور ہو گئی کہ کراچی کے اچھی شہرت رکھنے والے ایک بڑے اور ذاتی ہسپتال پہ قبضہ جمانے کی کوشش کی۔ چار برس ہوتے ہیں، کراچی میں جنرل پرویز مشرف سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ اس ادارے کی خاتون مالکن ان سے بات کرتے ہوئے رو پڑیں۔ کچھ ذمہ دار لوگوں سے انہوں نے بات کی تو بیچاری کا اثاثہ بچا۔ سب جانتے ہیں کہ بلاول ہائوس کے اردگرد درجنوں گھر کس طرح خریدے گئے۔ زرداری صاحب کی ”خرید کردہ‘‘ زرعی زمین کا اندازہ 30 ہزار ایکڑ کے لگ بھگ ہے۔

کراچی کی ایک مشہور کاروباری شخصیت نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک کمرشل پلاٹ زرداری صاحب کو پسند آ گیا۔ ان کے توسط سے مالک کو پیغام بھیجا کہ قیمت خرید پر ان کے حوالے کر دے۔ بمشکل اس نے جان چھڑائی۔ مرکز میں ایک مضبوط صدر موجود ہوتا تو کیا سندھ کی پولیس اور انتظامیہ کو اس بے دردی سے برتا جا سکتا؟ بینکوں میں عہدیداروں کا تقرّر کیا اس طرح ہوتا اور ان کے ذریعے سینکڑوں ارب روپے کی منی لانڈرنگ اس قدر آسانی سے ممکن ہوتی؟

دنیا بھر میں اسمبلیوں کا کام قانون سازی ہے۔ بالکل برعکس ہمارے ہاں ارکان اسمبلی تھانیداروں کے تقرر اور ٹھیکوںمیں ملوث ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شہباز شریف کے آخری برسوں میں بعض ارکان اسمبلی اپنے پسندیدہ ٹھیکیداروں کے ذریعے 17 فیصد تک کمیشن وصول فرماتے رہے۔ ترقیاتی منصوبے شاہی خاندان اور ان کے کارندوں کی سیاسی ترجیحات کے نقطہ نظر سے تشکیل دیئے جاتے۔افسوس کہ اس بدعت کو ترک کرنے کی بجائے، نئی حکومت نے اسے برقرار رکھا ہے۔

ہر معاشرے کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔ روایتی پارلیمانی نظام برطانیہ کو سازگار ہے، برصغیر کو نہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ کے ایک تہائی سے زیادہ ارکان پر سنگین جرائم کے مقدمات قائم ہیں۔ ہمارے ہاں نیب کے خلاف بہت واویلا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سیاسی انتقام کا ذریعہ ہے۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ سمیت اب تک جتنے لوگ گرفتار ہوئے، ان میں بے گناہ کون تھا؟ اگر پنجاب یونیورسٹی کے گزشتہ ایک عشرے کی داستان لکھی جائے تو ایک نئی طلسم ہوشربا وجود میں آئے۔

کم از کم پندرہ سو ملازمین میرٹ کے بغیر بھرتی کئے گئے۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے سمندر پار اساتذہ کی توثیق لازم ہے۔ کتنے ہی ایسے واقعات ہیں کہ مغربی یونیورسٹیوں کی تصدیق کے باوجود، بعض اساتذہ کو ڈگری دینے سے انکار کر دیا گیا۔ بعض کو مسترد کر دینے کے باوجود، ڈگریاں جاری کی گئیں اور اہم عہدے عطا کئے گئے۔ وائس چانسلر کی قوت کا راز ایوان وزیراعلیٰ سے روابط میں پوشیدہ تھا۔ اہم اخبار نویسوں سے وائس چانسلر نے تعلقات استوار کئے اور من مانی پہ من مانی کرتے رہے۔

بڑھنے کی بجائے تعلیمی اداروں کی تعداد اور استعداد کم ہوتی گئی۔ ہسپتالوں میں سہولتوں کا فقدان ہوتا گیا۔ ایسے نمائشی منصوبے حکمرانوں کی ترجیح تھے، جن پر تالی بج سکے۔بتدریج ترقیاتی بجٹ کا نصف سے زیادہ صرف لاہور پہ صرف ہونے لگا۔ صوبے کے دو بڑے مسائل‘ صاف پانی کی فراہمی اور آلودگی کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ کھربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔

عسکری اقتدار کی حمایت کوئی احمق ہی کر سکتا ہے۔ اس لئے کہ سول اداروں کے لیے بالآخر وہ بوسۂ مرگ ثابت ہوتا ہے۔ با ایں ہمہ معاشی خوش حالی جب بھی ملی، صدارتی نظام میں ملی۔ پھر کیوں اس پہ غور نہ کیا جائے؟ صدارتی نظام، چھوٹے صوبے اور مضبوط بلدیاتی ادارے۔ جی ہاں، اسٹیبلشمنٹ کے جبر سے نہیں، قومی اہمیت کے یہ فیصلے قومی اتفاق رائے سے نافذ ہونے چاہئیں۔

تجربات سے جو نہ سیکھیں زوال ان کا مقدر ہوتا ہے۔ آزادانہ بحث اور تازہ خیالات ہی سے فراغ ممکن ہے۔
آئین نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے، قوموں کی زندگی میں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے