یہ سارے تو شیر ہیں ہم سب ہیر پھیر ہیں

اللہ مجھے معاف فرمائے میں ناشکرا تو ہرگز نہیں لیکن کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ احتساب کے نام پر اک لاجواب قسم کا ڈرامہ ہو رہا ہے۔ہونا ہوانا کچھ نہیں۔ پہلے دو شعر سن لیں۔

شاعری کے شہزادے منیر نیازی نے لکھا تھا
؎راہبر میرا بنا، گمراہ کرنے کے لئےمجھ کو
سیدھے راستے سے دربدر اس نے کیا

اس شہزادے کے ایک پیادے فیضان عارف نے لکھا ہے
وطن کی عظمتوں کو ڈسنے والے
وطن کی آستیں میں پل رہے ہیں

خدشہ مرا یہ ہے کہ جو پل رہے ہیں وہ بدستور پلتے رہیں گے کیونکہ پاکستان میں کرپشن کی جڑیں نہیں، صرف، صرف اور صرف شاخیں ہی کاٹی بلکہ چھانگی جا رہی ہیں جس سے شجر کرپشن کی نشوونما میں اضافے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ سمجھ نہیں آ رہی کون کس کو بیوقوف بنا رہا ہے اور سادہ سی دلیل اس کی یہ ہے کہ غریب مرغی چور کو تو یہ نظام عالی مقام چشم زدن میں الٹا لٹکا دیتا ہے اور صرف ایک مرغی چرانے والے سے زبردستی یہ منوالیا جاتا ہے کہ اس نے پورا پولٹری فارم چرایا ہے جبکہ سیون سٹار چوروں کے نخرے ہی مان نہیں۔

ان کے پروڈکشن آرڈرز بھی جاری ہوتے ہیں اہم ترین کمیٹیوں کی سربراہیاں بھی ان کے سپرد، پروٹوکول بھی پورا، میڈیکل چیک اپ بھی جاری، خوراکیں اور پوشاکیں بھی ان کی پسندیدہ تو مجھے یہ بتا کربے وقوف مت بنائو کہ یہ قانون کے تقاضے ہیں کیونکہ یہی یا ان کے پیٹی بھائی ہی تو قانون بنانے والے ہیں ورنہ مرغی چوروں کا بھی کوئی استحقاق ہوتا لیکن یہ وہ سیانے اندھے اور کانے ہیں جو ساری ریوڑیاں آپس میں ہی بانٹتے رہتے ہیں اور یوں ہر لاقانونیت قانون کی آڑ میں جاری رہتی ہے۔ اقتصادی دہشت گردوں کیلئے بھی کہیں سپیڈی اور سمری کورٹس ہوتیں تو شایدکوئی دال دلیہ ہو جاتا، فی الحال تو آلو گوشت ، سری پایوں، سجیوں اور نہاریوں کا ہی دور دورہ ہے ۔ 22کروڑ تماشائی چولہا بجھائے توَا الٹائے تماشادیکھ رہے ہیں تو خاطر جمع رکھیں …اس احتساب کے انڈے سے چوزہ کبھی نہ نکلے گا زیادہ سے زیادہ اس انڈے کا آملیٹ ہی بنے گا جسے بنانے والے خود ہی کھا بھی جائیں گے۔

پروپیگنڈا یہ کہ قانون سب کیلئے برابر ہے حقیقت یہ کہ سب کچھ اس کے بالکل برعکس ہے ۔ ماڑے موٹے چوروں کیلئے کچھ، موٹے تازے ہٹے کٹے ڈاکوئوں کیلئے کچھ اور ،بھلا چائے کی پتی کا چور کھرب پتی چور کا مقابلہ کیسے کرسکتا ہے جبکہ کھرب بھی ڈالروں میں ہوں اور عرب علیحدہ دعا گو، اس لئے مجھے یقین سا ہونے لگا ہے کہ اور کسی کو ملے نہ ملے …عوام کو کبھی کوئی NROنصیب نہ ہوگا۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جوتی، مرغی چور کا اصل جرم ہی یہ ہوتا ہے کہ اس نے اربوں کی سبسڈیاں کیوں نہیں چرائیں ؟موٹر وے کا رول بنا کر کیوں نہیں کھایا؟ صاف پانی کمپنی کیوں نہیں پی ؟کھربوں روپے کے جعلی اکائونٹس کھولنے کی ’’سائنس‘‘ اور ’’ٹیکنالوجی ‘‘ سے استفادہ کیوں نہ کیا؟

آسکروائیلڈ لکھتا ہے ۔’’اسے پڑھتے ہوئے تمہیں تکلیف تو ہو گی، مگر اسے لکھتے ہوئے کہیں زیادہ اذیت مجھے ہوئی‘‘میں بھی اذیت سے گزرتے ہوئے چھوٹے موٹے چوروں کو یہ مشورہ دینے پر مجبور ہوں کہ چوریاں چھوڑو، بڑے بڑے ڈاکے مارو…پھر وکیل بھی بڑے، خبریں بھی بڑی، پروٹوکول بھی بڑے، پی اےسی کی چیئرمینیاں بھی بڑی، منسٹرز کالونی کی رہائش گاہیں بھی بڑی، اسپتال بھی بڑے، ڈاکٹرز بھی بڑے، چیک اپس بھی بڑے اور آرام کے مشورے بھی بڑے۔اور تو اور میڈیا بھی کبھی ’’صاحب‘‘ کے بغیر ذکر نہ کرے گا ورنہ منشا بم صاحب، سلطانہ ڈاکو صاحب، غیاثا ڈاکو صاحب، شیدا جیب کترا صاحب، راجو راہزن صاحب تو کبھی نہیں سنا کہ یہاں ’’صاحب‘‘ ہونا ہی ’’صاحب کمال‘‘ ہونا ہے ۔رہ گئی لوٹ مار تو جو جتنا بھوکا…اتنا ہی بڑا ڈاکہ تو اس میں برائی کیا ہے ؟

حنیف رامے مرحوم نے ’’پنجاب کا مقدمہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’برصغیر کے جینز میں بھوک ہے جس کے باعث آج بھی شادیوں، دعوتوں میں بھوکے فقیروں کی مانند کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں‘‘جتنا بڑا بھوکا اتنی بڑی بھوک’’سمندر پی جاواں تے ڈکار نہ ماراں‘‘’’ملک کھا جاواں تے خلال نہ پھیراں‘‘یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ 2005ء کے زلزلہ زدگان کو بھی یہ دیکھے بغیر کھا گئے کہ وہ زندہ ہیں یا مر گئے یا ان پر ابھی نزع کا عالم طاری ہے ۔میں نے ’’اینمل پلانٹ ‘‘ میں اک منظر دیکھا جو بھولتا نہیں۔اک شیر زندہ ہرن کو کھا رہا تھا۔خدا جانے ہرن کی جان کب اور کیسے نکلی ہو گی کیونکہ میں نے گھبرا کر چینل بدل دیا تھا۔یہ سب کے سب شیر ہیں جبکہ میں اور آپ ہیر پھیر ہیں۔زلزلہ زدگان کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’لٹے پٹے لوگوں کی امداد پوری دنیا نے کی۔

امدادی رقم حکومت کے پاس امانت تھی لیکن حکومت نے متاثرین کی امانت میں خیانت کی‘‘جو مرے ہوئوں کو مارنے، نوچنے، بھنبھوڑنے ، کھانے سے باز نہ آئیں، انہیں یہ قانون، قانون ساز اور قانون سازیاں روکیں گی؟بڑے لوگ بڑی بھوک جو سٹیل ملیں، ریلوے اور پی آئی اے کھا کے بھی نہیں مٹے گی کیونکہ احتساب کے نام پر کرپشن کی جڑیں نہیں …صرف شاخیں ہی کاٹی جا رہی ہیں اور قانون تب بدلیں گے جب قانون ساز تبدیل ہوں گے ۔میری دعا ہے میرا یہ خدشہ غلط ثابت ہو ورنہ یہ تو ہے ہی کہ یہ سارے تو شیر ہیں ہم سب ہیر پھیر ہیں جن کے دن پھرتے نظر نہیں آتے ۔’’موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ دے تو آج‘‘واقعی ان سب نے ہم سب کو بھی اپنے ہی رنگ میں رنگ لیا ہے ورنہ ان کا دفاع کون کرتا ۔رات ڈھلتی دکھائی دیتی ہےدن نکلتا نظر نہیں آتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے