مکافاتِ عمل

سب سے پہلے تمام اہلِ پاکستان کو نئے سال کی دلی مُبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خدا کرے یہ سال 2018ء سے بہتر ہو۔ آمین! مگر حالات کی عکاسی یوں ہو رہی ہے:

لوگو دُعا کرو کہ گزر جائے خیر سے

آثار کہہ رہے ہیں بُرا یہ بھی سال ہے

ملک اس وقت سخت غیر یقینی، تذبذب اور لڑائی جھگڑوں کا شکار نظر آ رہا ہے۔ بعض اوقات تو دل میں وسوسہ اور خوف محسوس ہوتا ہے کہ پھر کہیں ہم آمریت کا شکار نہ ہو جائیں۔ حکومت کام کرنے کے بجائے صبح سے شام تک الزام تراشی، سخت، گندی زبان کے استعمال میں مصروف ہے۔ پچھلی حکومت خراب تھی اسی وجہ سے تو لوگوں نے آپ کو اقتدار دیا، اب روز گھنٹوں ان کے بارے میں بیان بازی کرکے وقت کا ضیاع کیا جا رہا ہے۔ لڑائی جھگڑوں اور لفاظی سے کبھی اچھا نتیجہ نہیں نکلتا۔ الیکشن تو ہٹلر اور مسولینی نے بھی جیتے تھے مگر نتیجہ کیا نکلا؟ وہ آپ کے سامنے ہے۔

میری درخواست ہے کہ گرے کو لات مارنا بہادری نہیں، کم ظرفی ہے۔ اسکندر نے راجہ پورس کو حکومت واپس کر دی تھی۔ ہمارے سامنے ہمارے پیارے رسولﷺکی شاندار مثال موجود ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر آپؐ کے کردار، عمل اور فراخدلی کی پوری دنیا تعریف کرتی ہے۔ آپﷺ کو جن لوگوں نے شہید کرنا چاہا تھا، سخت تکالیف دی تھیں، آپؐ نے ایک جملہ میں سب کو معاف کر دیا اور کبھی زبانِ مبارک پر ان پچھلی تلخ باتوں کا ذکر نہیں آیا۔ یہ ہمارے لئے سنہری مثال ہے۔

انسان کو اللہ رب العزّت نے بار بار ہدایت کی ہے کہ معاف کرنا انتقام لینے سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ اس وقت حکومت نے جو رویّہ اختیار کیا ہوا ہے اس سے فضا سخت غیر یقینی حالات سے پُر ہے۔ اگر آپ کی یہی کوشش ہے کہ ہر مخالف کو ہر طریقے سے زیر و ذلیل کرکے گھر بھیج دیا جائے تو پھر آپ کچھ عرصہ کے لئے ڈکٹیٹر بن سکتے ہیں مگر ڈکٹیٹر شپ ہمیشہ نئی ڈکٹیٹر شپ کو دعوت دیتی ہے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اداروں اور عدلیہ کو اپنا کام کرنے دیں اور حکومت اپنی کارکردگی سے عوام کی خدمت کرے اور اس کی حمایت حاصل کرے۔ موجودہ اقدامات سے اس کے خلاف نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ وزیراعظم کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی حکومت میں اور ساتھیوں میں بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو پارٹی کے لئے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ یہی حال نواز شریف کا تھا، ان کا انجام آپ کے سامنے ہے۔

دیکھئے بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ میں دراصل پچھلی حکومت کے انجام پر بات کرنا چاہ رہا تھا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی کو بُرے حال میں دیکھ کر خوش ہونا کم ظرفی ہے۔ مجھے ان لوگوں کو دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے اور توبہ استغفار کرتا ہوں کہ اللہ پاک بے شک تیری گرفت بہت سخت اور دُکھ دینے والی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ تکبّر اور دروغ گوئی کو سرکاری پالیسی بنا لیا۔ انہوں نے بلا ضرورت بلکہ نہایت غلط پالیسی پر عمل کرکے مشرف کی تمام ٹیم کو گلے لگا لیا۔

ان کو اس حال میں پہنچانے والوں میں دانیال عزیز، طلال چوہدری وغیرہ ہیں جو روز گھنٹوں عدلیہ اور عمران خان کو بُرا بھلا کہتے رہے۔ نواز شریف ان کو فارورڈ ٹیم سمجھ کر خوش ہو رہے، ان کی لفّاظی نے ہی عمران خان کو نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی لیڈر بنا دیا۔ ان لوگوں نے اور ان کے بعض ساتھیوں نے عدلیہ اور ججوں کی توہین کی۔ ان کو کبھی یہ خیال نہ آیا کہ معزز جج صاحبان اچھے تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ہیں اور ان کو احساس ہے کہ ان کے فیصلوں کو نہ صرف ملک میں بلکہ بین الاقوامی سطح پردیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔

وزیراعظم نے دنیا دیکھی ہے لیکن دنیا دیکھنے اور اچھی حکومت کرنے میں زمین، آسمان کا فرق ہے۔ جلد بازی میں فیصلے غلط ثابت ہوئے اور پشاور کی خستہ حالی الزامات اور اعتراضات کو جنم دے رہی ہے، تجاوزات جلد بازی میں گرانے سے ہزاروں کیا لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے۔ معیشت پر اس کے بُرے اثرات نظر آ رہے ہیں۔ اپنے وفادار ساتھیوں کو نوازنا ٹھیک ہے مگر جہاں نہایت اہم محکموں کا تعلق ہے وہاں اگر قومی نمائندے موجود نہیں تو مشیر لگا دیں۔ دیکھئے! اس قسم کی غلطی شہباز شریف نے بھی کی تھی، انھوں نے ایک معمولی سے مکینیکل انجینئر کو صحت کا مشیر، وزیر بنا رکھا تھا۔

صرف لاہور شہر میں سینکڑوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر موجود ہیں، کسی کو بھی مشیر لگا سکتے تھے اور 100ملین عوام کی صحت کا خیال کر سکتے تھے۔ اگر اس انجینئر کو اس کے بھائی کی خاطر نوازنا ہی تھا تو ہائی وے کا چیف انجینئر لگا دیتے۔ وہاں بھی مال بنانے کی بہت گنجائش اور مواقع تھے۔ شہباز شریف کے نہایت شرمناک حملے زرداری پر قابل مذمت ہیں۔ حکومت کو یا کسی سیاست دان کو کسی کے بارے میں ایسی گندی زبان استعمال کرنا زیب نہیں دیتا مگر تہذیب، خوش کلامی کا اس ملک کے سیاستدانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

خدا جانے اس ملک میں کب مہذب سیاست آئے گی۔مجھے اندازہ ہے کہ اگر نواز شریف‘ زرداری کو یہ پیشکش کرتے کہ وہ پی پی پی کے نمائندے کو وزیراعظم کیلئے کھڑا کر دیں اور پہلے ڈھائی تین سال وہ اور پھر ن لیگ حکومت کرے گی تو زرداری وزارت عظمیٰ کی سیٹ حاصل کر سکتے تھے۔ اگر یوسف رضا گیلانی کو کھڑا کرتے تو جیت ممکن تھی۔ اسی طرح پنجاب میں بھی اگر زرداری کو پیشکش کر دیتے تو وہاں مرکز کے مقابلے میں پی پی پی، ن لیگ کی حکومت بنانا آسان ہو جاتی۔ اکثریت کے باوجود ہارنا عقلمندی اور اہلیت کا فقدان ظاہر کرتی ہے۔ بہرحال جو ہو گیا سو ہو گیا۔ دعا کریں کہ موجودہ حکومت اچھے کام کرے اور عوام کو سہولتیں میسر ہو جائیں۔ آمین!

(نوٹ) سندھ میں جعلی اکائونٹس سے رقموں کی ہیرا پھیری اور پنجاب میں بھی مشتبہ کمپنیوں کی لوٹ مار کسی بھی طرح تحقیقات کرنے والے اداروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھی۔ ایسا لگتا ہے پنجاب اور سندھ والوں نے مک مکا کر لیا تھا کہ ’’من تُرا حاجی بگویم، تو مرا مُلّا بگو!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے