جنّت اور جہنم !

کیا خوبصورت صبح ہے ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے درخت ایک سرمستی کے عالم میں جھوم رہے ہیں اور میں خود کو بہت ترو تازہ محسوس کر رہا ہوں جو بدنصیب خدا پر یقین نہیں رکھتے وہ جوش ملیح آبادی کا یہ شعر ہی پڑھیں ؎

ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لئے

اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی

میں اس وقت اگر خود کو ترو تازہ اور بہت خوش محسوس کر رہا ہوں تو اس کی وجہ صرف صبح کی خوبصورتی نہیں اس میں جنت کی وہ آسودگی بھی شامل ہے جس کا تجربہ میں نے رات کو کیا۔ جی ہاں، میں نے گزشتہ رات جنت میں گزاری۔

میں نے خواب دیکھا کہ میں جنت میں ہوں(خواب دیکھنے میں کیا حرج ہے) میرے اردگرد خوبصورت حوریں ’’پیلاں‘‘ ڈال رہی ہیں ان میں سے ایک مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش میں مشغول ہے مگر آخر میں انسان ہوں ایک ہی وقت میں سب کو مناسب ٹائم کیسے دے سکتا ہوں ان میں سے ایک حور ڈیل ڈول والی ہے اور وہ Possessive بھی بہت ہے میں جب اِدھر اُدھر نظر دوڑاتا ہوں تو وہ میرے منکے کو جھٹکا دے کر کہتی ہے بندے کے پتر بنو، اتنے ندیدے پن کی ضرورت نہیں۔

تم نے اب ہمیشہ یہیں رہنا ہے میں خوفزدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتا ہوں اور پوچھتا ہوں واقعی؟‘‘ وہ بولی ہاں تمہارے اعمال ہی ایسے ہیں۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنی پوری قوت صرف کر کے اس حور سے اپنا منکا واگزار کروایا اور جنت کے دوسرے نظاروں سے اپنی آنکھیں شاد کرنے کے لئے وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اب میرے دونوں طرف نہریں بہہ رہی تھیں درمیان میں پھولوں بھری معطر معطر رہگزر تھی جس پر میں خراماں خراماں چل رہا تھا۔ میرے دائیں والی نہر دودھ اور بائیں طرف والی نہر شہد کی تھی میں نے ابھی ناشتہ نہیں کیا تھا چنانچہ میں نے تالی بجائی ایک حور میرے سامنے آن کھڑی ہوئی میں نے کہا ہم ناشتہ کرنا چاہتے ہیں۔ فوری طور پر اس کا انتظام کیا جائے اس نے سر جھکا کر پوچھا سر آپ ناشتے میں کیا لیں گے۔

میں نے کہا دودھ کا ایک کپ شہد بریڈ اور انڈے! اس نے پوچھا سر انڈے فرائی یا آملیٹ؟ میں نے اس حور کو آنکھ بھر کر دیکھنے کی کوشش کی مگر اس کے حسن کی تاب نہ لا سکا اور آنکھیں نیچی کر کے کہا جو آپ کھلا دیں اس نے دودھ کی نہر میں سے ایک کپ دودھ اور شہد کی نہر میں سے دو چمچ شہد لا کر میرے آگے رکھ دیا اور کچھ دیر بعد وہ بریڈ اور انڈے بھی لے آئی اس نے جھک کر سات بار فرشی سلام کیا اور پوچھا کوئی اور خدمت؟ میں نے شکریہ ادا کیا۔ لیکن وہ بضد نظر آئی کہ اس سے کوئی اور خدمت بھی لی جائے یہ میرے لئے ممکن نہیں تھا۔ کیونکہ میں ناشتے میں یہی کچھ لیتا ہوں تاہم میں نے اس سے پوچھا میں صبح سے نہایا نہیں کیا میں دودھ کی نہر میں نہا سکتا ہوں۔ بولی شوق سے مگر یہاں کچھ جنتیوں نے بلیاں پالی ہوئی ہیں آپ نہا کہ نکلیں تو انہیں قریب نہ بھٹکنے دیں یہ جسم چاٹنا شروع کر دیتی ہیں۔‘‘

میں جنت کی حسین فضائیں اپنے دل و دماغ میں بساتا آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ میں اس کی ہوائوں کی لذت بیان نہیں کر سکتا اس کے سامنے باد نسیم کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ یہاں درختوں پر ایسے لذیذ اور انوکھے پھل لگے تھے جو میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں چکھے یہاں یاقوت کے محل تھے یہاں اللہ تعالیٰ کی موجودگی باقاعدہ محسوس ہوتی تھی اور شاید جنت کا سب سے بڑا انعام یہی تھا۔ میں آگے بڑھتے بڑھتے ایک دیوار کے پاس پہنچا میں نے دیوار کی دوسری جانب جھانک کر دیکھا تو ادھر دوزخ کا میدان تھا۔ دوزخیوں میں زیادہ تر چہرے میرے جانے پہچانے تھے۔

ان میں حاکم تھے، سیاستدان تھے، جرنیل تھے، دانشور تھے، عالم دین تھے، تاجر تھے، وکیل تھے، جج تھے غرضیکہ وہ سب لوگ یہاں موجود تھے جو دنیا میں دیکھنے میں کچھ اور تھے اور اپنے اعمال میں کچھ اور میں نے دیکھا کہ ایک خوفناک دلدل جس میں وہ گردن گردن غرق ہیں ان سب کے ہاتھ میں چائے کا ایک ایک کپ ہے اور وہ مزے سے اس کے گھونٹ لے رہے ہیں مجھے یہ منظر بہت عجیب لگا کیونکہ میں نے سنا تھا کہ دوزخیوں کو عبرتناک سزائیں ملیں گی مگر یہ سزا تو ان سزائوں کے مقابلے میں بہت معمولی تھی جو میں نے سن رکھی تھی اتنے میں داروغہ جہنم کی کرخت آواز فضاء میں گونجی ’’چائے کا وقفہ ختم اب سارے جہنمی دلدل میں دوبارہ سر کے بل کھڑے ہو جائیں۔ پتہ چلا کہ جہنم کا یہ گوشہ کم گناہ گاروں کے لئے ہے۔

میں یہ منظر زیادہ دیر تک دیکھنا چاہتا تھا ویسے بھی اس اثناء میں ایک حور نے آ کر میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کیوں اپنا وقت ضائع کر رہے ہو۔ میں اس کے ساتھ چل پڑا۔ ابھی تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ تین چار حوروں نے جو خوبصورتی میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ تھیں۔ مجھے اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ میں اس کھینچا تانی سے تنگ آ کر لیٹ گیا جس پر ایک نے میرے پائوں، ایک نے ٹانگیں دبانا شروع کر دیں۔ ایک میرے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی۔ اب میں سب کچھ تو نہیں بتا سکتا کیونکہ میں ادھر کی باتیں اُدھر بتانے کے خلاف ہوں۔ آپ کو بھی ایک بات بتاتا ہوں اور یہ وہ نتیجہ ہے جو میں نے جنت اور جہنم کے نظاروں سے اخذ کیا ….اور وہ یہ کہ اگر زندگی خلقِ خدا کی خدمت میں گزاری ہے تو موت جنت ہے۔ دوسری صورت میں موت جہنم کی طرف جانے والا ساتھ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے