کوہلی کو وزیر اعظم عمران خان کی مبارک باد، کیا برصغیر کی سیاسی فضاؤں میں کسی تبدیلی کی دستک ہے؟
یہ وادیٔ پُر خار ایک مدت سے کسی آبلہ پا کی تلاش میں ہے۔ قائد اعظمؒ اور گاندھی کو، تجربات نے اس نتیجے تک پہنچا دیا تھا کہ مذہبی اختلاف اس خطے میں فساد کی وہ آگ بھڑکا سکتا ہے جسے بجھانے کے لیے بحیرہ عرب ناکافی ہو گا۔
دونوں نے اپنے تئیں یہ کوشش کی کہ اس آگ کو پھیلنے سے روکا جائے۔ قائد اعظمؒ تدریجاً اس خیال تک پہنچے کہ برصغیر کی دو ریاستوں میں تقسیم، اس فساد کے امکانات کو ختم کر سکتی ہے۔ گاندھی کا طویل عرصہ اصرار رہا کہ ہندو مسلم ایک دوسرے کو قبول کر کے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک مرحلے پر لیکن انہوں نے جان لیا کہ تاریخ کی منہ زور قوتوں نے اپنا وزن تقسیم کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے پھر اسے ایک حقیقت کے طور پر قبول کر لیا۔
دونوں کی یہ خواہش تھی کہ تاریخ نے اپنا فیصلہ جب تقسیم کے حق میں دے دیا ہے تو ایک دوسرے کے وجود کو دل سے مان لینا چاہیے۔ قائد اعظمؒ نے اسی لیے چاہا تھا کہ پاک بھارت تعلقات، اسی نہج پر آگے بڑھیں جس نہج پر امریکہ‘ کینیڈا کے تعلقات قائم ہیں۔ گاندھی جی کو معلوم تھا کہ تقسیم کے بعد بھی، بھارت میں رہ جانے والے مسلمان کچھ کم نہیں ہوں گے۔ اگر مذہبی اختلاف کو کسی ضابطے میں نہ لایا گیا تو تقسیم کے باوجود، یہ بھارت کے لیے ایک داخلی مسئلہ بنا رہے گا۔ انہوں نے ہندو انتہا پسندی کو روکنا چاہا اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے پُرامن مستقبل کے لیے اپنی جان تک دے دی۔
افسوس کہ دونوں کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ دونوں اطراف وہ قوتیں غالب آ گئیں‘ جنہوں نے دو ریاستوں کے باہمی مفادات کو متصادم سمجھ کر اپنی اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دی۔ اس کے لیے مذہب کو اس بے دردی سے استعمال کیا گیا کہ دو قومی ریاستوں کا اختلاف، دو مذاہب کے اختلاف میں بدل گیا۔ نہرو جیسا تاریخ کا ایک سنجیدہ طالب علم یہ نہ جان سکا کہ تاریخ نے اقوام کی آزادی کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اور اگر کشمیریوں نے خود کو قوم میں ڈھال لیا تو اُن کی آزادی کو تا دیر روکا نہیں جا سکتا‘ اگر مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو یہ مستقبل کے سب خوابوں کو چکنا چور کر دے گا۔
اقوامِ متحدہ نے انہیں موقع دیا تھا مگر وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ مقبوضہ کشمیر کے حالات بتا رہے ہیں کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے یا نہ بنے، یہ طے ہے کہ کشمیر کی پوری نسل بھارت کی باغی ہو چکی۔ اس وقت بھارت اور کشمیر کا رشتہ حاکم اور محکوم کا رشتہ ہے۔ یہ رشتہ مصنوعی ہے جو تا دیر قائم نہیں رہ سکے گا۔ بھارت کے پاس اب دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مقبوضہ کشمیر کو مسلسل فساد کی نذر کیے رکھے، یہاں تک کہ عالمی اور علاقائی مفادات رکھنے والی ریاستی اور غیر ریاستی قوتیں یہاں اپنے لیے جگہ بنا لیں اور بھارت کی درد سری میں اضافہ ہو جائے۔ جیسے افغانستان میں پاکستان کے لیے مسائل بڑھتے گئے جب یہ عالمی رزم گاہ بن گیا اور اس مسئلے کے حل کے مواقع، پے در پے گنوا دیے گئے۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر مسئلہ کے حل کے لیے سنجیدہ ہو جائے۔ اس سے بھارت کے لیے آسانی ہو گی کہ اسے صرف پاکستان سے معاملہ کرنا پڑے گا۔ اگر وہ پاکستان کے ساتھ اپنے مسائل حل کر لیتا ہے تو پھر وہ اپنی معاشی ترقی کے لیے یک سو ہو سکتا ہے۔ بھارت کو اب ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اپنی حکمتِ عملی کو تاریخی عمل سے ہم آہنگ بنا سکے۔
پاکستان کو بھی ایسی ہی قیادت کی ضرورت ہے۔ ایسا لیڈر جو اس خطے کے بارے میں قائد اعظمؒ کے وژن کی طرف لوٹ سکے۔ جس میں یہ جرأت ہو کہ وہ پاک بھارت تعلقات کو امریکہ کینیڈا جیسے تعلقات میں بدل دینے کا عزم رکھتا ہو۔ جسے اس بات کا شعور ہو کہ پاکستان کا مسقتبل خطے کے امن سے وابستہ ہے۔ کیا وزیر اعظم عمران خان یہ کردار ادا کر سکتے ہیں؟
تاریخ سازی تنگ دل لوگوں کا کام نہیں۔ اس کے لیے عمران خان صاحب کو سب سے پہلے اپنا دل کھلا کرنا پڑے گا اور پاک بھارت تعلقات کو تاریخی پس منظر میں سمجھنا ہو گا۔ انہیں یہ جاننا ہو گا کہ یہ کام پہلی بار نہیں ہو گا۔ اس کا ایک ماضی ہے اور ماضی میں جس کا جو کردار ہے، اس کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ اعتراف زبانِ قال سے ضروری نہیں کہ اس کے لیے بے پناہ اخلاقی قوت کی ضرورت ہوتی ہے؛ تاہم وہ زبانِ حال سے اس کا اعتراف کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ بات کو وہاں سے آگے بڑھائیں جہاں تک یہ پہنچی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس باب میں نواز شریف صاحب کے کردار کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ جنرل مشرف نے یہی کوشش کی اور ناکام رہے۔ نواز شریف نے پاکستان کے وقار کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر، ایک بہتر مستقبل کی طرف قدم بڑھایا۔ جنرل مشرف نے اس کوشش کو سبوتاژ کر دیا۔ پھر انہوں نے یہ چاہا کہ اس عمل کو دوبارہ شروع کریں۔ جنرل صاحب یہاں تک گئے کہ پاکستان کے قدیم موقف کو نظر انداز کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ اس کے باوجود، وہ تاریخ کے بہاؤ کو دوبارہ اپنی گرفت میں نہ لے سکے۔
مجھے دکھائی دیتا ہے کہ عمران خان صاحب اس عمل کو ایک بار پھر شروع کرنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف ایک کاروباری آدمی تھے۔ انہوں نے چاہا کہ ‘تجارتی سفارت کاری‘ سے کام لیں۔ عمران خان ایک کھلاڑی ہیں۔ اگر وہ کھیل کو سفارت کاری کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو یہ اسی نوعیت کی ایک کوشش ہو گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس کے خدوخال کیسے واضح کرتے ہیں۔
کوہلی کو مبارک باد دینے سے، معلوم یہ ہوتا ہے کہ وہ اس خطے کو، عالمی سیاسی تناظر میں، ایک وحدت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ اس نوعیت کی پہلی کوشش نہیں ہے۔ بھٹو صاحب نے اسے تیسری دنیا کی وحدت کے طور پر دیکھا۔ بنیادی تصور یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کے مقابلے میں ترقی پذیر اور غریب لوگ، خود کو ایک اکائی سمجھیں۔ کرکٹ کے حوالے سے دیکھیں تو جب مقابلہ آسٹریلیا یا برطانیہ سے ہے تو پاکستان بھارت ایک ہیں۔
سرِدست اکثریت کے لیے یہ ایک اجنبی تصور ہے۔ ہم بطور قوم ہمیشہ بھارت کی شکست کی خواہش رکھتے ہیں، مقابل جو بھی ہو۔ عمران خان یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر مقابلے میں کوئی مغربی یا ترقی یافتہ قوت ہو تو ہمیں بھارت کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ہماری ہمدردیاں اپنے جیسے کسی ملک اور عوام کے ساتھ ہونی چاہئیں۔ غربت، افلاس جیسے مسائل کو دیکھا جائے تو پاکستان اور بھارت ایک ہیں۔ یہ عالمی تناظر میں ایک نئی شناخت کی تلاش کا عمل ہے۔
کیا عمران خان صاحب یہ بڑا کام کر پائیں گے؟ اس کے لیے انہیں نواز شریف کے انجام سے راہنمائی لینا ہو گی۔ سادہ لفظوں میں، کوئی نئی بات کہنے سے پہلے، ان تمام قوتوں کو اعتماد میں لینا ہو گا جو اس معاملے میں سٹیک ہولڈر ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ اس پر قومی سطح پر ایک مکالمے کا بھی آغاز کرنا چاہیے۔ اس میں سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کو بھی اعتماد میں لینا ہو گا۔
میں عمران خان صاحب کے اس اقدام کا خیر مقدم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ برصغیر میں امن کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہو۔ ہمیں بطور قوم یہ بات سمجھنا ہو گی کہ جو بھارت کے ساتھ امن کی بات کرتا ہے یا کسی عالمی تناظر میں پاکستان اور بھارت کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے، لازم نہیں کہ وہ مودی کا یار ہو۔ ایسے لوگ ہی دراصل مودی کے حقیقی مخالف ہیں۔ جو پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات میں کشیدگی پیدا کرتا اور ہندو مسلم دشمنی کو ہوا دیتا ہے، وہی مودی کا یار ہے۔
عمرن خان نے ایک وادیٔ پُرخار میں قدم رکھا ہے۔ اس وادی کوکسی آبلہ پا کا انتظار ہے۔ دیکھئے، ان کانٹوں کی پیاس کب بجھتی ہے!