سوال ہی سوال ہیں۔ جواب ندارد

سچ تو یہ ہے کہ سیاست ہماری اس وقت شدید جمود کا شکار ہے اور یہ حقیقت اتنی حیران کن بھی نہیں۔2014ء کے دھرنے کی بدولت ہمارے ہاں تاج اچھالنے اور تخت گرانے کا ہنگامہ شروع ہوا۔ اس کے بعد پانامہ ہوگیا۔ ان سب ہنگاموں کی بدولت حقیقی نقصان سیاسی عمل اور جماعتوں کو ہوا جس کا اعتراف ہمارے صف اوّل کے رہ نما کرنے سے گھبرارہے ہیں۔ وہ جسے Initiativeیا پیش قدمی کہا جاتا ہے ان کے ہاتھ میں نہیں رہی۔ ریاست کے دائمی اداروں کے پاس جاچکی ہے۔ دریں اثناء 25جولائی 2018ء کے انتخابات کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت برسراقتدار آگئی۔ اسے معیشت کو سہارا دینے کے لئے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی درکار ہے۔

وہ دیکھنے میں نظر نہیں آرہی۔ احتساب کا عمل جاری ہے جس کی لگام اس حکومت کے ہاتھ میں نہیں۔ اپنے مخالفین کی رسوائی اور مشکلات کا مگر کریڈٹ لئے جارہی ہے۔تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کو احتساب کی آندھی سے محفوظ رہنے کے بندوبست کی فکر لاحق ہے۔آندھی تھمے گی تو کوئی نیا بیانیہ تشکیل دے کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے۔اس وقت تک ٹی وی ٹاک شوز میں محض باتیں ہیں۔پوائنٹ سکورنگ ہے۔ سوشل میڈیا پر لیکن ہماری سیاسی جماعتوں کے جذباتی حامی رونق لگانے کا موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

چند روز قبل عمران خان صاحب ترکی تشریف لے گئے تھے۔ اپنے ساتھ گئے وزیروں اور مشیروں کے ساتھ انہوں نے وہاں کے صدر اور ان کے ہمراہ بیٹھے وزراء کے ساتھ جو ملاقات کی اس کی تصویر کا بے تحاشہ ’’تجزیہ‘‘ ہوا۔ تیروں کی مدد سے ہمیں سمجھایا گیا کہ دونوں وفود کی بدن بولی میں تال میل نہیں ہے۔ پروٹوکول وغیرہ خاطر میں نہیں لایا گیا۔ سوال اگرچہ یہ اٹھانا ضروری تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم کے اس دورے کا اصل ہدف کیا تھا۔ ہمارا برادر ملک اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ وہاں سے پاکستان کے لئے سرمایہ کاری کی لہٰذا اُمید نہیں۔ ترکی تیل پیدا کرنے والا ملک بھی نہیں ہے کہ ہماری اس ضمن میں اُدھار پر ہوئی سپلائی کے ذریعے کچھ مدد کرسکے۔

کم از کم 2005ء تک ہماری وزارت ِ خارجہ پاکستانی صدر یا وزیر اعظم کے کسی غیر ملکی دورے سے قبل ’’آف دی ریکارڈ‘‘ بریفنگ کا اہتمام کیا کرتی تھی۔خارجہ امور پر لکھنے والے صدر یا وزیر اعظم کے ہمراہ بھی جایا کرتے تھے۔ ہمارے ہی چند بااصول صحافیوں کو مگر احساس ہوا کہ ایسے دوروں میں سرکاری جہازوں میں جانا ’’لفافہ پن‘‘ ہوتا ہے۔ اس کے خلاف تندوتیز مہم چلی ۔ صدر یا وزیر اعظم اس کی وجہ سے محض سرکاری وفود کے ساتھ سفر کرنا شروع ہوگئے۔ ان کے غیر ملکی دورے سے قبل اور وہاں سے لوٹنے کے بعد ’’آف دی ریکارڈ‘‘ بریفنگز کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔ ٹھوس معلومات کے بغیر ہم صحافی ایسے دوروں کے بارے میں محض ٹامک ٹوئیوں سے کام چلاتے ہیں۔

محض قیافہ پر انحصار کی بدولت میں بھی یہ سوچنے کو مجبور ہوا کہ شاید امریکی صدر نے ترکی کے صدر کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرنے کے بعد اچانک شام سے اپنی افواج نکالنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ واشنگٹن کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ کے معاملات کو نیٹو کے اہم اور اکیلے مسلمان ملک-ترکی- کو Outsourceکرنے کا عندیہ دے رہا ہے۔ ترکی کا افغانستان کے معاملات میں اہم کردار رہا ہے۔ وہاں کے ازبک علاقے کو وہ وسیع تر ترکی کا حصہ شمار کرتا ہے۔

پاکستان سے اس کی دوستی دیرینہ اور کئی حوالوں سے Strategicبھی ہے۔ ٹرمپ کے ساتھ اردوان کی بڑھتی دوستی شاید ترکی کو پاکستان اور امریکہ کے درمیان افغانستان کے حوالے سے کوئی نئی راہ ڈھونڈنے میں بھی مدد گار ہوسکتی تھی۔ میری سوچ کسی حد تک درست ثابت ہوئی۔ترکی کے صدر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے ملک میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہوجانے کے بعد مارچ سے افغانستان کے تناظر میں کوئی کردار ادا کرے گا۔ مارچ مگر بہت دور ہے۔ ٹرمپ کو افغانستان کا ’’حل‘‘ ڈھونڈنے کی بہت جلدی ہے۔ یہ حل تلاش کرنے کی خاطر اس کا چنامشیر-زلمے خلیل زاد- یہ کالم لکھنے کے دن سے ایک بار پھر پاکستان،افغانستان،چین اور بھارت کے 14دنوں تک پھیلے سفر کے لئے روانہ ہوچکا ہے۔

اس سفر کی خبر آنے سے قبل اُمید تھی کہ وہ قطر میں طالبان کے وفد سے ملاقات کرے گا۔ یہ ملاقات اس سے قبل سعودی عرب میں ہونا تھی۔ طالبان نے وہاں جانے سے انکار کردیا کیونکہ بقول ان کے وہاں سعودی حکومت افغان حکومت کے نمائندوں کو بھی مذاکرات میں شامل کرنے پر بضد تھی۔ طالبان صرف امریکہ سے بات کرنے کے خواہاں ہیں۔زلمے خلیل زاد سے انہوں نے اس وجہ سے بھی فی الوقت ملنے سے انکار کردیا ہے کیونکہ بقول ان کے امریکہ یہ مطالبہ کررہا ہے کہ بات آگے بڑھانے سے قبل طالبان افغانستان میں جنگ بندی کا اعلان کریں اور اپنی قید میں موجود امریکی افراد کی رہائی کا بندوبست کریں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ زلمے خلیل زاد کے موجودہ سفر سے ایک روز قبل امریکی صدر نے ٹیلی فون پر بھارت کے نریندرمودی سے طویل گفتگو کی۔

اس سے قبل وہ اپنے مخصوص انداز میں ٹی وی کیمروں کے سامنے مودی کا یہ کہتے ہوئے تمسخراُڑاتا رہا کہ اس کی جب بھی بھارت کے وزیر اعظم سے افغانستان کے ضمن میں بات ہوتی ہے وہ اس ملک میں لائبریری کے قیام کی ڈینگ مارنا شروع ہوجاتا ہے۔ زلمے خلیل زاد اپنی تعیناتی کے بعد سے ابھی تک افغانستان مسئلے کے حل کی تلاش کے لئے بھارت نہیں گیا تھا۔ امریکی صدر سے بھارت کے وزیر اعظم کی ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کے بعد اس کا بھارت جانا خبر دے رہا ہے کہ واشنگٹن نئی دہلی کو افغانستان مسئلے کے حوالے سے ایک اہم Stakeholderسمجھتا ہے۔پاکستان کئی برسوں سے بہت شدت کے ساتھ بھارت کا یہ کردار تسلیم کرنے سے انکاری تھا۔ شاہ محمود قریشی کے حالیہ بیانات اگرچہ عندیہ دے رہے ہیں کہ شاید اب ہم یہ کڑوی گولی نگلنے کو تیار ہیں۔

اگر میری سوچ درست ہے تو سوال اٹھانا واجب ہے کہ ہمارے رویے میں یہ تبدیلی کیوں آئی۔ اس سوال کا جواب مگر مجھ جیسے دو ٹکے کے صحافی کو فراہم کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوگا۔ ذہن میں اُٹھے سوالوں کا جواب ملنے کی گنجائش نہ ہو تو سوشل میڈیا کی جانب سے Body Language کے ’’تجزیے‘‘ پر مبنی چسکہ فروشی سے جی کو خوش رکھنے کے سوا راستہ ہی نظر نہیں آتا۔ توجہ طلب بات اگرچہ یہ بھی ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ بھی ان دنوں بھارت میں ہیں۔ طالبان کا ایک وفد چند روز قبل تہران گیا تھا۔ اس وفد کی ایرانی قیادت سے جو ملاقات ہوئی اس کی تفصیلات نئی دہلی کو باقاعدہ فراہم کردی گئی ہیں۔بھارت کو امریکہ نے یہ سہولت بھی دے رکھی ہے کہ وہ اس کی ایران کے خلاف عائد پابندیوں کے باوجود اس ملک سے اپنی ضرورت کا تیل بھارتی روپے میں قیمت ادا کرتے ہوئے حاصل کرتا رہے۔

چاہ بہار کی بندرگاہ پر بھارتی سرمایہ کاری پر بھی امریکہ کو کوئی اعتراض نہیں۔ ہمارے ہاں اگرخارجہ امور پر واقعتا کوئی صحافیانہ کام ہورہا ہوتا تو یہ سوال اٹھاکر اس کا جواب تلاش کرنے کے لئے مشقت کی ضرورت ہوتی کہ بالآخر واشنگٹن مسئلہ افغانستان کا حل ڈھونڈنے کے لئے پنجابی محاورے والے ’’کس کی ماں کو ماسی‘‘ بنارہا ہے۔ طالبان کا باقاعدہ دفتر قطرمیں موجود ہے۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس ملک کا مقاطعہ کررکھا ہے۔طالبان کے آخری مذاکرات امریکہ سے ابوظہبی میں ہوئے تھے۔ اب سعودی عرب کی باری تھی۔ پاکستان نے سعودی اور امارتی Trackکو کامیاب بنانے میں اپنا حصہ ادا کیا۔ اب مگر بھارت اور ایران پر مبنی ایک اورٹریک بھی نمودار ہوگیا ہے۔ ہم ان دونوں Tracksمیں سے کس کا انتخاب کریں گے۔ سوال ہی سوال ہیں جواب مگر ندارد۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے